1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

شمشیر حیدر Anthee Carassava
22 اپریل 2017

یونانی دارالحکومت کے وسط میں واقع اس پارک کے مغربی حصے میں کبھی زیادہ تر صرف ساحل کا رخ کرنے والے سیاح ہی نظر آتے تھے۔ اب لیکن یہاں چند پیسوں کی خاطر نابالغ پاکستانیوں سمیت کئی مہاجر بچے اپنے جسم بیچتے دکھائی دیتے ہیں۔

Griechenland Flüchtlinge in Athen
تصویر: DW/D. Cupolo

جب میں ایتھنز کے پیڈیان ٹو آریوس نامی اس پارک کے بس اسٹاپ پر پہنچا تو دیوار سے ٹیک لگائے وہاں کھڑا علی نامی ایک سترہ سالہ پاکستانی تارک وطن  ٹوٹی پھوٹی انگلش میں مجھے پوچھنے لگا، ’’تمہیں کچھ چاہیے؟ میں اچھے ریٹ پر دے سکتا ہوں۔‘‘

اسی عمر کا ایک اور پاکستانی مہاجر لڑکا، جس نے اپنا نام بھی علی بتایا، کہنے لگا، ’’اگر تمہیں لڑکیاں پسند ہیں تو تمہیں دوسرے پارک میں جانا پڑے گا۔‘‘ پھر اپنا بیگ لہراتا ہوا وہ بولا، ’’کہو تو میں تمہیں وہاں لے چلوں؟‘‘

یہاں سے گزرنے والے لوگوں میں سے کچھ ان دونوں پاکستانی مہاجر بچوں کی پیش کش سن کر پریشان ہو جاتے ہیں، کچھ ڈر جاتے ہیں، لیکن زیادہ عمر کے کچھ ایسے مرد بھی دکھائی دیتے ہیں، جو پہلے تو ان لڑکوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر عجیب سا احساس لیے وہاں سے چل دیتے ہیں۔

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جب ان دونوں پاکستانی لڑکوں کو پتہ چلا کہ میں کوئی گاہک نہیں بلکہ صحافی ہوں، تو یہ دونوں پریشان ہو گئے اور کسی نئے گاہک کی تلاش میں وہاں سے گزرنے والے دوسرے لوگوں کی جانب متوجہ ہو گئے۔ مجھ سے پہلے بات کرنے والا لڑکا بس اسٹاپ پر بنی لوہے کی ایک کرسی پر جا بیٹھا، اس نے اپنی جیکٹ کی زپ بند کی اور مجھ سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

ایتھنز میں موجود ہزاروں تارکین وطن مغربی یورپ پہنچنے کے خواہش مند ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/A. Warnecke

لیکن دوسرا لڑکا بے باک انداز میں میری جانب بڑھا اور کہنے لگا، ’’دیکھو، ہم دس یا پندرہ یورو لے کر یہ کام کرتے ہیں۔ بغیر کسی کنڈوم کے۔ یہ پیسے ہم اپنے جرمنی جانے کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔‘‘

لیکن بات اتنی سی ہی تو نہیں ہے۔ معاملہ اس سے کہیں پریشان کن ہے۔ یونان میں پاکستان، افغانستان اور شام جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے باسٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں، جو مغربی یورپ جانے کے خواہش مند ہیں۔ ان دونوں علی نامی لڑکوں اور ان جیسے تنہا نابالغ بچوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کو ادائیگی کر کے یونان سے نکل پائیں۔ اسی لیے ایسے نابالغ لڑکے نہ صرف معمولی سی رقم کے عوض جنسی رابطوں پر تیار ہو جاتے ہیں بلکہ وہ اسی کام کو مجبوری میں اپنی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی بنا چکے ہیں۔

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

ایسی افواہیں تو پہلے سے ہی عام تھیں لیکن اسی ہفتے ہارورڈ یونیورسٹی نے یورپ میں پناہ کے متلاشی نابالغ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق اپنی ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کی شریک مصنفہ پروفیسر جیکولین بھابھا کے مطابق، ’’یہ ڈپلومیسی سے لے کر انسانی حقوق تک کے شعبوں میں کی گئی سنگین ترین غلطیوں کا بھیانک نتیجہ ہے۔ گیارہ بارہ سال کی عمر کے بچوں کا گزر بسر کے لیے خود کو جنسی تعلقات کے لیے بیچنا اور اس عمل پر انحصار کرنا ناقابل برداشت معاملہ ہے۔ اس خوفناک صورت حال کی ذمہ داری مہاجرین کے بحران کے ذمہ دار تمام فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔‘‘

یونان میں کتنے نابالغ مہاجر بچے جسم فروشی پر مجبور ہیں، اس حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن اس یورپی ملک میں پھنسے ہوئے اور مہاجرین کی قانونی حیثیت سے محروم تارکین وطن کی ایک تہائی تعداد (تقریباﹰ بائیس ہزار) بچوں ہی پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بھی قریب ڈھائی ہزار تنہا سفر کرنے والے نابالغ بچے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کی حقیقی تعداد دراصل اس اندازے سے بھی دوگنا ہو سکتی ہے۔ ایسے بچے ہی عام طور پر جسم فروشی کو پیشہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اسی پارک کے ایک دوسرے حصے میں کھڑا ایک پاکستانی تارک وطن طوطی اس بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے۔ طوطی کہنے لگا، ’’میں نے شروع سے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ صد افسوس، میں نے بھی یہ کام کیا۔ اب میں تو یہ کام نہیں کرتا لیکن دوسرے کئی لڑکے ابھی تک کرتے ہیں۔‘‘ اس دوران طوطی نے کچھ ہی فاصلے پر ایک درخت کی ایک شاخ سے لٹکی ایک سرخ چادر کی جانب اشارہ کیا۔ ’’ان بچوں کا قصور نہیں ہے۔‘‘ طوطی کہنے لگا، ’’یہ تو مجبور ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی امید کھو چکا ہے اور اب ہم صرف یہاں سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

دو سال قبل جب مہاجرین کا بحران شروع ہوا تھا تو شامی اور افغان مہاجر بچے پیسوں کے عوض اپنا جسم بیچنے پر مجبور تھے۔ لیکن جوں جوں یہ بحران شدت اختیار کرتا گیا، عراقی، ایرانی اور اب پاکستانی بچوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد بھی یہ کام کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

طوطی نے بتایا کہ ان بچوں کے پاس ہر طرح کے گاہک آتے ہیں۔ لیکن ہارورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر پینتیس برس سے زائد عمر کے مرد ایتھنز شہر کے وکٹوریہ اسکوائر اور اس پارک کے ارد گرد کے علاقوں میں ہی ایسے بچوں کی تلاش میں آتے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایتھنز میں یہ دونوں جگہیں پہلے بھی منشیات اور غیر قانونی جسم فروشی کا مرکز تھیں۔ لیکن موجودہ صورت حال کے برعکس پہلے یہاں نابالغ بچے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مہاجرین کی مدد کرنے والے رضاکاروں اور سماجی اداروں کے مطابق انسانوں کے اسمگلر انہیں مغربی یورپ تک پہنچانے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور ان بچوں سے ہزاروں یورو طلب کیے جاتے ہیں۔ پناہ کے متلاشی یہ نابالغ بچے اپنے وطنوں کی جانب واپس لوٹنے کو بھی تیار نہیں۔

اس پارک میں موجود علی نامی دونوں پاکستانی لڑکوں میں سے ’دوسرے علی‘ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے اپنے گھر والوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں مایوس نہیں کروں گا۔ جو کچھ میں کر رہا ہوں، وہ وہ تو نہیں جو میں یا میرے گھر والے چاہتے تھے۔ لیکن میرے لیے اس کے علاوہ کچھ کرنا ممکن بھی تو نہیں رہا۔‘‘

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں