1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں ہزاروں سال پرانا بیل کا چھوٹا سا مجسمہ دریافت

20 مارچ 2021

آثار قدیمہ کے یونانی ماہرین کے مطابق یہ بہت چھوٹا سا مگر ہزاروں سال پرانا اور انتہائی نایاب مجسمہ اسی مقام سے ملا ہے، جہاں کبھی دور جدید کے کھیلوں کے مقبول اولمپک مقابلوں کا آغاز ہوا تھا۔

Griechenland I Archäologischer Fund I Ancient Figurine
تصویر: str/picture alliance

یونان کے شہر اولمپیا میں قریب تین ہزار سال پرانے کانسی کے اس مجسمے کی دریافت زبردست بارشوں کے بعد ہوئی۔ ایتھنز میں ملکی وزارت ثقافت نے اسے ایک 'اتفاقیہ دریافت‘ قرار دیا ہے۔

وزارت ثقافت کے مطابق یہ دھاتی مجسمہ 'زیوس‘ اور 'ایٹلی‘ کے معبد کے پاس ایک مقدس جگہ کے پاس سے ملا ہے، جس کا ایک سینگ مسلسل بہت تیز بارشوں کے بعد زمین کی سطح سے کچھ اوپر نمودار ہو گیا تھا۔‘‘

یہ مجسمہ یونان کے قدیم ترین شہر اولمپیا میں اسی علاقے سے ملا ہے، جہاں ہزاروں برس قبل کھیلوں کے آج کل کے عالمی سطح پر بہت مقبول اولمپک مقابلوں کی ابتدا ہوئی تھی۔ تیز بارش کی وجہ سے زمین کی بالائی سطح کی مٹی پانی کے ساتھ بہہ گئی تھی، جس کی وجہ سے زمین میں دھنسا ہوا یہ مجسمہ جزوی طور پر نظر آنے لگا تھا۔ اسے آثار قدیمہ کے ایک ماہر نے محض اتفاقاﹰ دیکھا تھا۔

تصویر: str/picture alliance

وزارت ثقافت کے مطابق دریافت کے بعد اس مجسمے کو صاف کیا گیا اور اب اسے محفوظ کر لیا گيا ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق ایک بیل کا یہ چھوٹا سا دھاتی مجسمہ 1050 قبل مسیح سے لے کر 700 قبل مسیح تک کے درمیانی دور کا ہے۔ اس کی سطح پر جلے ہونے کے نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجسمہ ممکنہ طور پر قدیم یونانی دیوتا 'زیوس‘ کو بطور نذرانہ پیش کیا گيا ہو گا۔

قدیم یونان میں عام لوگ اکثر دیوتاؤں کو نذرانے پیش کرنے کے لیے معبدوں میں چھوٹے چھوٹے مجسمے بھی چڑھاوے کے طور پر لاتے تھے۔

قدیم یونان میں کوہ اولمپس کے بادشاہ سے جو علامات وابستہ کی جاتی تھیں، ان میں بہت زور سے گرجنے والی آسمانی بجلی، عقاب اور بلوط کے درخت کے ساتھ ساتھ بیل بھی ایک اہم کلیدی علامت تھا۔

ص ز / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)

سیر کیجیے یونان کے ایک انتہائی دلکش مقام کی

03:58

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں