یونان میں 35 امدادی کارکنوں پر مہاجرین کی اسمگلنگ کا الزام
28 ستمبر 2020
یونانی پولیس کے مطابق مہاجرین کی مدد کرنے والی کئی غیر ملکی تنظیموں کے درجنوں کارکن، تارکین وطن کی اسمگلنگ اور منظم جاسوسی کے مرتکب ہوئے۔ غیر حکومتی تنظیموں کے ان 35 کارکنوں میں دو غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں۔
اشتہار
یونانی دارالحکومت ایتھنز میں ملکی پولیس نے بتایا کہ یہ تین درجن کے قریب امدادی کارکن ترکی سے تارکین وطن کی یونان آمد میں غیر قانونی مدد کے مرتکب ہوئے۔ پیر 28 ستمبر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں پولیس نے بتایا کہ کئی مختلف غیر ملکی این جی اوز سے تعلق رکھنے والے یہ کارکن کم از کم بھی 32 واقعات میں 'اسمگلنگ اور جاسوسی‘ کے مرتکب ہوئے۔
بیان کے مطابق یہ امدادی کارکن تارکین وطن کو اسمگل کرنے والے عناصر کو یونانی کوسٹ گارڈز کی محافظ کشتیوں کی پوزیشن سے مطلع کر دیتے تھے۔ اس طرح انسانوں کے اسمگلروں کی رہنمائی کی جاتی تھی کہ انہیں تارکین وطن کو لانے والی اپنی کشتیوں کے ساتھ یونانی جزیرے لیسبوس کے کس ساحلی علاقے پر کب پہنچنا ہوتا تھا۔
ان امدادی کارکنوں پر لگائے گئے الزامات اس لیے سنگین ہیں کہ وہ منظم جرائم اور مجرمانہ جاسوسی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان کارکنوں میں سے کسی کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق پولیس نے ان ملزمان کی شناخت کے لیے کئی ماہ تک چھان بین کی، جس میں یونانی انٹیلیجنس اور انسداد دہشت گردی کے محکمے نے بھی مدد کی۔
بیان کے مطابق یہ مبینہ ملزمان انسانوں کے اسمگلروں کی تارکین وطن کو ترکی سے بحیرہ ایجیئن کے یونانی جزیرے لیسبوس تک پہنچانے میں مدد کرتے تھے اور وہ ایسا کم از کم بھی اس سال جون کے اوائل سے کر رہے تھے۔
پولیس کے بیان میں کہا گیا کہ یہ این جی او کارکن آپس میں رابطوں کے لیے پرائیویٹ سوشل میڈیا گروپ اور ایپس استعمال کرتے تھے۔
پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ مبینہ 'اسمگلنگ اور جاسوسی‘ کے مرتکب یہ کارکن کن غیر سرکاری امدادی تنظیموں کے لیے کام کرتے تھے۔ تاہم یہ کہا گیا کہ یہ تنظیمیں غیر ملکی ہیں، جن کے ارکان میں جرمنی، آسٹریا، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور بلغاریہ کے شہری شامل ہیں۔
م م / ا ب ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔