’یونان نے مہاجرین کے لیے کوئی خفیہ مقام نہیں بنایا‘
12 مارچ 2020امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ یونانی حکومت نے ترکی سے یونان میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے ایک خفیہ 'بلیک سائٹ‘ قائم کر رکھی ہے، جہاں موجود تارکین وطن نہ تو سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا سکتے ہیں اور نہ وہاں وکیلوں کا داخلہ ممکن ہے۔
ترکی کی جانب سے فروری میں اس بیان کے بعد کہ وہ سن 2016 میں یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی پاس داری ختم کرنے والا ہے، ہزاروں افراد نے ترکی سے یونان پہنچنے کی کوشش کی۔ کئی مقامات پر یونانی حکومت نے تارکین وطن کے خلاف آنسو گیس اور تیز دھار پانی کے ساتھ ساتھ طاقت کا استعمال کیا تاکہ وہ ملکی حدود میں داخل نہ ہوں۔ ایتھنز حکومت کا کہنا ہے کہ اس نےگزشتہ دو ہفتوں کے دوران 42 ہزار تارکین وطن کو یونان میں داخلے سے روکا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے مضمون میں تارکین وطن کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یونانی سکیورٹی فورسز نے انہیں گرفتار کرنے کے بعد برہنہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، جب کہ انہیں سرحد کے قریب مختلف عمارتوں میں رکھا گیا۔
امریکی اخبار نے سیٹلائٹ تصاویر اور موبائل ڈیٹا کے حوالے سے کہا تھا کہ مہاجرین کو رکھنے کے لیے ایک ایسی ہی جگہ پوروس گاؤں کے قریب واقع ہے۔ یہ گاؤں یونان اور ترکی کی سرحد سے دور نہیں ہے۔
دوسری جانب ایتھنز حکومت کے ترجمان ستیلیوس پیتساس نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''یونان میں کوئی خفیہ حراستی مرکز نہیں ہے۔ اگر ایک بین الاقوامی اخبار کسی جگہ کو جانتا ہے، تو وہ خفیہ کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''سرحدوں کے تحفظ سے متعلق تمام امور شفاف ہیں اور ان معاملات میں ملکی دستور کو بالا رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے کوئی خفیہ چیز نہیں ہے۔‘‘
ع ت، ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)