یونان کا جرمنی سے سینکڑوں ارب یورو زر تلافی کی طلبی کا فیصلہ
18 اپریل 2019
یونانی پارلیمان نے فیصلہ کیا ہے کہ نازی جرمنی کی طرف سے دوسری عالمی جنگ کے دوران خوفناک جنگی جرائم اور بے تحاشا مادی نقصانات کے ازالے کے لیے یونان جرمنی سے سینکڑوں ارب یورو کے زر تلافی کا مطالبہ کرے گا۔
اشتہار
ایتھنز میں ملکی پارلیمان کے ایک فیصلے کے مطابق یونان دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے سات عشرے سے بھی زائد عرصے بعد اب جرمنی سے یہ باضابطہ مطالبہ کرے گا کہ برلن ایتھنز کو ممکنہ طور پر 290 ارب یورو تک کے زر تلافی کی ادائیگی کرے۔
یونانی پارلیمان نے یہ فیصلہ بدھ سترہ اپریل کو اکثریتی رائے سے کیا اور ملکی ماہرین کے ایک کمیشن مطابق ان رقوم کی مالیت 290 ارب یورو تک ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں ایوان میں ایک مسودہ قرارداد پارلیمانی اسپیکر نیکوس وُوٹسِس نے پیش کیا، جس میں ملکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے تمام سفارتی اور قانونی اقدامات کرے، جو جرمنی سے اس مالی ازالے کی وصولی کے لیے ناگزیر ہیں۔
شروع میں زبانی مطالبہ
مسودہ قرارداد کے مطابق شروع میں یونان جرمنی سے یہ مطالبہ زبانی طور پر یعنی سیاسی قیادت کی سطح پر کرے گا۔ عام طور پر اگر کوئی ریاست ایسا کرنا چاہے، تو اسے اپنا مطالبہ تحریری طور پر جرمن وزارت خارجہ تک پہنچانا چاہیے۔ اس بارے میں وزیر اعظم الیکسس سپراس نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا، ’’جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا ہمارا ایسا تاریخی اور اخلاقی فرض ہے، جس میں کوئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔‘‘
سپراس نے کہا کہ ایتھنز کے اس مطالبے کا یونان کو گزشتہ کئی برسوں سے درپیش مالیاتی بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یونان کی یہ خواہش ہے کہ اس طرح اس کے ذمے واجب الادا کئی سو ارب یورو کے قرضوں کی واپسی کے عمل کو تیز تر کیا جا سکے۔ سپراس نے تاہم یہ دعویٰ بھی کیا کہ مالیاتی بحران کے سلسلے میں بین الاقوامی بیل آؤٹ پیکجز کے بعد اب وہ مناسب ترین وقت ہے کہ یونان جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرے۔
سپراس 2015ء کے پارلیمانی الیکشن میں یونانی عوام سے جن وعدوں کے بعد اقتدار میں آئے تھے، ان میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن دستوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور جنگی جرائم کی تلافی کے لیے ازالے کی رقوم دلوائیں گے۔
یونان پر نازی قبضے کے حقائق
دوسری عالمی جنگ کے دوران اڈولف ہٹلر کی قیادت میں جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ یا نازی حکومت کے فوجی دستوں نے اپریل 1941ء سے لے کر ستمبر 1944ء تک یونان پر قبضہ کیے رکھا تھا۔ اس دوران تقریباﹰ تین لاکھ یونانی باشندوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس تقریباﹰ ساڑھے تین سال تک کے قوجی قبضے کے عرصے میں نازی جرمن فوج نے یونان میں کئی بار عام شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان واقعات میں سے لنگیادیس، دِستومو، کالاوریتا، کاندانوس اور ویانوس جیسے شہروں اور قصبوں میں کیے جانے والے قتل عام کے واقعات بڑے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
یونانی صدر کا موقف
یونان میں، جس کے لیے نازی قبضے کے دور سے بہت سی تکلیف دہ یادیں جڑی ہوئی ہیں، ملکی صدر پروکوپِس پاولوپولوس بھی اس زر تلافی کے مطالبے اور اس کی ادائیگی کے بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے اس سال کے اوائل میں زور دے کر کہا تھا کہ ایسا مطالبہ کرنا یونان کا حق ہے اور اس متنازعہ معاملے میں فیصلہ یورپی سطح پر کسی بااختیار قانونی ادارے یا فورم کو کرنا چاہیے۔
جرمنی کے لیے یہ باب بند ہو چکا ہے
جہاں تک یونان کے اس آئندہ مطالبے کے بارے میں وفاقی جرمن حکومت کے موقف کا تعلق ہے تو برلن میں میرکل حکومت کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے ایتھنز میں پارلیمانی قرارداد پر کسی فیصلے سے پہلے ہی اس موقف کی وضاحت کر دی تھی۔
ترجمان کے مطابق وفاقی حکومت کو اس بارے میں بہت افسوس بھی ہے اور گہرا احساس جرم بھی کہ نازی دور میں جرمن دستوں نے یونان پر قبضے کے برسوں میں وہاں کیا کیا ظلم ڈھائے تھے، لیکن اس کے با وجود کسی مالی ازالے کی ممکنہ ادائیگی سے متعلق جرمن حکومت کی سوچ اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
میرکل حکومت کے ترجمان کے بقول، ’’برلن حکومت کا خیال یہ ہے کہ یہ معاملہ قانونی اور سیاسی سطح پر اور حتمی طور پر بھی حل کیا جا چکا ہے۔‘‘
جرمنی ماضی میں یونان کی طرف سے اس بارے میں گاہے بگاہے کیے جانے والے بالواسطہ ذکر پر یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ایتھنز کو ایسی کوئی ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی۔
اس لیے کہ ایک تو 1953ء میں لندن میں طے پانے والے قرضوں سے متعلق معاہدے میں جرمنی کو ہر طرح کے زر تلافی کی ادائیگی کی ذمے داری سے آزاد کر دیا گیا تھا اور دوسرے یہ کہ 1990ء میں بین الاقوامی سطح پر ’دو جمع چار‘ کی بنیاد پر طے پانے والے دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے معاہدے کے تحت بھی یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔
زر تلافی کی مالیت کتنی
یونانی ماہرین کے ایک کمیشن کے مطابق ایتھنز کو برلن سے جس مالی ازالے کا مطالبہ کرنا چاہیے، اس کی مالیت 290 ارب یورو تک ہو سکتی ہے۔
لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے انکار کے باوجود شماریاتی سطح پر یہ رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ اگر برلن حکومت چاہتی بھی تو ادائیگی تقریباﹰ ناقابل تصور ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برس جرمنی کے سالانہ وفاقی بجٹ کی کل مالیت تقریباﹰ 344 ارب یورو تھی اور اگر یونان کی خواہش کو سامنے رکھا جائے تو 290 ارب یورو کے مالی ازالے کے ممکنہ مطالبے کا مطب ہو گا جرمنی کے سالانہ وفاقی بجٹ کی کل مالیت کا تقریباﹰ 85 فیصد۔
م م / ا ا / ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔