1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان کے لئے عالمی امداد کا معاہدہ طے پا گیا

2 مئی 2010

یونان کے مالیاتی بحران کے حل کے لئے امدادی پیکیج پر ایتھنز حکومت کا یورپی کمیشن اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات کا اعلان آج اتوار کو کیا جا رہا ہے۔

یونانی وزارت خزانہ نے معاہدہ طے پانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وزیر اعظم جارج پاپاندریو اس کی تفصیلات کا اعلان کریں گے۔ اس مالیاتی پیکیج کا حجم 120 بلین یورو تک ہو سکتا ہے، جو تین سال پر محیط ہوگا۔ یورپی کمیشن نے ہنگامی قرضوں کی صورت میں ان رقوم کی فراہمی کے بدلے یونان سے اپنے سالانہ بجٹ میں مزید کفایت شعاری کا مطالبہ کیا ہے، جس کے لئے حکام کو تنخواہوں اور پنشن میں کمی کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں میں اضافہ بھی کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی عوام اس حکومتی پروگرام کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔

یونانی وزیر اعظم جارج پاپاندریوتصویر: AP

تاہم ایتھنز حکومت اسی پروگرام کے ذریعے ملک کو بدترین مالیاتی بحران سے نکالنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم جارج پاپاندریو کا کہنا ہے کہ ملک کو بچانے کے لئے نئے قرضے لینا ناگزیر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ شہری بہت مشکل وقت کے لئے تیار رہیں۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان اقدامات کے لئے انہیں سیاسی سطح پر قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور مخالفت کا سامنا بھی ہے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ کمزور نہیں پڑیں گے۔

دوسری جانب دارالحکومت ایتھنز میں ہفتہ کو مالی کفایت شعاری کے حکومتی منصوبوں کے خلاف مزید مظاہرے کئے گئے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان وزارت خزانہ کے دفاتر کے سامنے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس موقع پر سرکاری ٹیلی وژن کی گاڑی پر پٹرول بم سے حملہ ہوا۔ مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر بوتلیں اور پتھر برسائے اور سِنتاگاما اسکوائر پر واقع ایک ہوٹل پر بھی ہلہ بول دیا۔

یوم مئی کے موقع پر ایتھنز سمیت یونان کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف ایسی ریلیاں ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ایماء پر منعقد کی گئیں۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیںتصویر: AP

مظاہرین نے یورپی کمیشن اور عالمی مالیاتی ادارے IMF کے خلاف نعرے بازی کی۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق مظاہرین میں سے ایک ایرکوس فنالیس نے حکومت کے بچت پروگرام کو عوام پر صدیوں میں کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکام عوام کو واپس 19ویں صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

مظاہرین میں شامل ایک خاتون مرینا یوتِس نے کہا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن عوام یہ ضرور جانتے ہیں کہ ان کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

یونان کے شمالی شہر سالونیکی میں بھی ایسے ہی مظاہرے کئے گئے۔ وہاں مشتعل نوجوانوں نے بینکوں اور دیگر کاروباری اداروں کے دفاتر پر حملے کئے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں