یونان کے مہاجر کیمپوں میں افغان خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا
صائمہ حیدر انفومائیگرینٹس
17 فروری 2018
یونان میں ایک افغان پناہ گزین تنظیم نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یونانی مہاجر کیمپوں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں افغان خواتین بھی شامل ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق یونانی مہاجرین کیمپوں میں جنسی تشدد عام ہے۔
اشتہار
مہاجرین کے بارے میں خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرینٹس کے مطابق پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ دی یونین آف سولیڈیریٹی آف افغان مائیگرینٹس‘ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونانی مہاجرین کیمپوں میں مقیم متعدد افغان خواتین کو بھی جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس تنظیم کے ایک رکن رضا غلامی کے مطابق مہاجرین ٹینٹوں میں رہ رہے ہیں اور ان کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے والا کوئی نہیں۔ غلامی نے انفو مائیگرنٹس کو مزید بتایا،’’ سن 2015 میں افغان خواتین پر جنسی تشدد کے کئی ایک کیسز سامنے آئے تھے۔ ایسے دو مہاجر کیمپ جہاں خواتین کو ریپ کرنے کے واقعات زیادہ ہوئے، بند کر دیے گئے ہیں۔ افغان خواتین کو نہ صرف افغان مہاجرین نے بلکہ دیگر پناہ گزینوں نے بھی زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘‘
مسئلہ زیادہ گھمبیر اس لیے بھی ہوا ہے کیونکہ افغان خواتین اپنی عزت کے خیال سے حکام کو ایسے واقعات کی اطلاع نہیں دیتیں۔ غلامی نے بتایا،’’ سن 2015 یا سن 2016 میں ایک شادی شدہ افغان خاتون کو کئی مردوں نے چاقو دکھا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ہم نے اس واقعے کی رپورٹ حکام کو کرنا چاہی لیکن اس خاتون نے اپنی بے عزتی کے خیال سے ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اسے یونان کے مہاجر کیمپوں میں ایسے چھ سو افراد سے معلومات ملی ہیں جنہیں جنسی یا صنفی امتیاز کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مہاجرین کے لیے کام کرنے والی اس افغان تنظیم نے یونان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ تارکین وطن کے کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ افراد نہ رکھے جائیں اور یہاں رہائش کی صورت حال بہتر بنائی جائے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.