یونیسکو کا اعزاز لکھنؤ کے لذیذ اور منفرد کھانوں کے نام
20 نومبر 2025
بھارت کے شہر حیدرآباد کے بعد اب لکھنؤ کو بھی یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ اعزاز لکھنؤ کو اس کی منفرد کھانوں کی روایت کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ تاہم یہ اعزاز صرف ایک شہر کی کامیابی نہیں بلکہ تقسیمِ ہند کے بعد سرحدوں کے دونوں طرف منتقل ہونے والے ذائقوں کی مشترکہ کہانی کا تسلسل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لکھنؤ، حیدرآباد اور کراچی کے کھانوں کی جڑیں ایک ہی تہذیبی تنے سے نکلتی ہیں۔
کراچی کی مشہور اسٹریٹ فوڈ کی بنیاد 1947ء کی ہجرت کے دوران متحدہ ہندوستان کے اتر پردیش، خاص طور پر لکھنؤ، کانپور اور رام پور سے آنے والے خاندانوں نے رکھی تھی۔ کراچی کے سینئر شیف عباس علی کہتے ہیں، ''ہجرت کے بعد کراچی کا ذائقہ مکمل طور پر بدل گیا۔ جو کھانے آج کراچی کی شناخت کہلاتے ہیں، وہ دراصل لکھنؤ اور رام پور کی وراثت ہیں۔‘‘
اسی طرح رام پور سے ہجرت کر کے کراچی آنے والے ایک خاندان کی شیف زیبا نعیم کا کہنا ہے کہ اصلی اودھی ذائقوں کی روح اب کراچی کے کمرشل اسٹریٹ فوڈ سے تقریباً رخصت ہو چکی ہے اور یہ پکوان اب چند گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
لکھنؤ کے کھانوں کی روایت
اودھ کے نوابوں کے دور میں کھانا پکانا ایک اعلیٰ فن اور سائنسی عمل سمجھا جاتا تھا۔ گوشت کو نرم کرنے کے طریقے، مصالحوں کی آمیزش اور دم کی تکنیک ایسی تھیں، جنہیں نزاکت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
لکھنؤ کے داستان گو اور فوڈ ہسٹورین ہماشو باجپئی کہتے ہیں، ''غیر منقسم ہندوستان میں اگر کہیں کھانوں پر سب سے زیادہ باریک بینی سے کام ہوا تو وہ لکھنؤ تھا۔‘‘
کھانا: سرحدوں کے درمیان ایک پل
پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں میں بہت سی چیزیں تبدیل ہوئیں لیکن کھانوں کا ذائقہ سرحدوں کے پار بھی اپنی جگہ بناتا رہا ہے۔ بھارتی کرکٹر ایم ایس دھونی پاکستانی نہاری کے دلدادہ رہے ہیں، جبکہ سارو گنگولی کراچی کی اسٹریٹ فوڈ کے لیے راتوں کو ہوٹلوں سے نکلتے دیکھے گئے۔ اسی طرح پاکستان کے وسیم اکرم حیدرآبادی کھانوں کے مداح ہیں۔
سینئر پاکستانی صحافی مزار عباس 2005ء میں بھارتی نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی کے دورۂ پاکستان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفد کی گفتگو میں سندھی کھانے سب سے دلچسپ موضوع تھے۔ ان کے مطابق کھانا سب سے مؤثر ثقافتی سفارت کاری ہے، جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اصل بریانی کس کی؟ ایک دیرینہ سوال!
سوشل میڈیا پر یہ بحث اکثر شدت اختیار کر لیتی ہے کہ اصل بریانی لکھنؤ کی ہے، حیدرآباد کی یا کراچی کی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھانے تہذیب کا حصہ ہیں اور انہیں جغرافیائی یا سیاسی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر وویک کمار کہتے ہیں، ''کھانا مشترکہ شناخت کی علامت اور نرم طاقت ہے۔ اسے تقسیم کرنے سے اصل ذائقہ مجروح ہوتا ہے۔‘‘
کھانے اور سیاسی رنگ
یونیسکو کا اعزاز ملتے ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مبارکباد دیتے ہوئے ایک سبزی خور تھالی کی تصویر شیئر کی، جبکہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے ریاست کی ویجی ٹیرین ڈشوں سے جوڑ دیا۔
لکھنؤ کے شہریوں اور فوڈ ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ یونیسکو نے واضح طور پر لکھنؤ کی غیر سبزی خور مغلائی اور اودھی روایت، خاص طور پر کباب، نہاری، کورما اور بریانی کو اس اعزاز کی بنیاد قرار دیا ہے۔
قصور کے روایتی کھانے فاسٹ فوڈ کلچر کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟
ماہرین کے مطابق یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کھانا اب محض کھانا نہیں رہا بلکہ سیاسی شناخت کا آلہ بھی بن چکا ہے۔
شیف عباس علی کو امید ہے کہ جس طرح موسیقی اور فنونِ لطیفہ کے تبادلے ہوتے ہیں، اسی طرح کھانوں کا تبادلہ بھی لاہور، دہلی اور لکھنؤ جیسے شہروں میں ہونا چاہیے تاکہ خطہ اپنی مشترکہ جڑوں سے دوبارہ جڑ سکے۔ یونیسکو کا یہ اعزاز دراصل پورے جنوبی ایشیا کے باورچی خانوں کی تاریخ، ہجرت، محبت اور تہذیب کی مشترکہ داستان کا اعتراف ہے۔
ادارت: امتیاز احمد