یونیسکو کی نئی سربراہ فرانس کی اُودرے آزولے ہوں گی
عابد حسین
14 اکتوبر 2017
فرانس کی سابق وزیر ثقافت اُودرے آزُولے (Audrey Azoulay) کو اقوام متحدہ کے تعلیمی، ثقافتی اور سائنسی ادارے یونیسکو کی نئے سربراہ کے طور پر منتخب کر لیا گیا ہے۔ ابتدائی رائے شماری میں وہ دوسرے نمبر پر تھیں۔
اشتہار
تیرہ اکتوبر کو ہونے والی رائے شماری میں آزولے نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ سابق فرانسیسی وزیر ثقافت اُودرے آزُولے نے خلیجی ریاست قطر کے سابق وزیر حمد بن عبدالعزیز الکواری کو ایک سخت مقابلے کے بعد شکست دی۔
انہیں حتمی رائے شماری میں تیس ووٹ حاصل ہوئے اور الکواری کو اٹھائیس ووٹ ملے۔ اس سے قبل ہونے والے ووٹنگ کے مرحلوں میں سابق قطری وزیر حمد بن عبدالعزیز الکواری کو سبقت حاصل تھی۔ انہیں بائیس ووٹ ضرور ملے لیکن یہ مطلوبہ حد سے کم رہے۔
یونیسکو کے نئے سربراہ کے انتخاب میں سابق مصری خاتون سفارت کار موشہرا خطاب بھی ایک مضبوط امیدوار کے طور پر شریک تھیں لیکن آخری رائے شماری میں وہ کوئی تاثر قائم نہیں کر سکیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ قطر اور مصر کے درمیان پیدا سفارتی تنازعے نے بھی رائے شماری پر اثر مرتب کیا ہے۔ فرانسیسی سفارت کاروں کی ٹیم اپنی امیدوار کے حق میں اس تنازعے کو بھی استعمال کر رہی تھی۔ رائے شماری میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی اٹھاون رکن ریاستیں شریک تھیں۔
کامیابی حاصل کرنے کے بعد پینتالیس سالہ اُودرے آزُولے کا کہنا تھا کہ یونیسکو بحرانی صورت حال سے دوچار ہے اور اب اس ادارے کی افادیت اور ضرورت کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ادارے میں اصلاحاتی عمل متعارف کرنے کو بھی اہم قرار دیا۔ مبصرین کے مطابق نئی ڈائریکٹر جنرل کو دنیا کے ثقافتی مقامات کو عالمی ورثے میں شامل کرنے کے لیے نئی ترجیحات کو فوقیت دینا ہو گی۔۔
بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی اس ادارے کی موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایرینا بوکوفا کی مدت ملازمت پندرہ اکتوبر کو مکمل ہو جائے گی۔ بوکوفا کی سربراہی کے دور میں یونیسکو کو مالی مشکلات کے ساتھ کئی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کامیاب امیدوار کی توثیق دس دسمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کی جائے گی۔ یونیسکو کے نئے سربراہ کا انتخاب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب امریکا اور اسرائیل نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان ملکوں نے یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان جمعرات بارہ اکتوبر کو کیا تھا۔ امریکا نے علیحدگی کے اعلان میں ادارے کے جانبدارانہ رویے اور مالی معاملات کو اہم وجہ قرار دیا تھا۔
سن 2017 کے لیے یونیسکو کے عالمی ورثے کے مقامات
یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی پولینڈ کے شہر کاراکوو میں میٹنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس میٹنگ میں نئے مقامات کو عالمے ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مقامات کی تفصیل تصاویر میں موجود ہے۔
تصویر: SCP/P.F. Amar
دساؤ کا باؤ ہاؤس طرز تعمیر کا اسکول
یونیسکو کی عالمی میراث میں باؤ ہاؤس طرز تعمیر کے اسکولوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس جرمنی کے شہر دساؤ میں واقع ایک اسکول کو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ اسکول باؤہاؤس کے دوسرے ڈائریکٹر ہانیس میئر کی نگرانی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
تصویر: Stiftung Bauhaus Dessau/M. Brück
بیرناؤ کا اے ڈی جی بی ٹریڈ یونین اسکول
باؤ ہاؤس طرز تعمیر کے تحت یہ اسکول سن 1930 میں مکمل کیا گیا تھا۔ ہانیس میئر ہی کی رہنمائی میں اِس اسکول کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسکول کی عمارت فطرت سے جدا دکھائی نہیں دیتی۔ بیرناؤ جرمن دارالحکومت برلن کے قریب واقع ہے۔
تصویر: Brenne Architekten
جرمنی: برفانی دور کے نقوش کی غاریں
جنوبی جرمنی کے سوابین الپس میں واقع چھ غاروں میں چالیس ہزار برس پرانے انسان کے نقش و نگار سن 1860 میں دریافت ہوئے تھے۔ ان نقوش کو انسانی تمدن کے اولین نشانات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ جرمنی کا بیالیسواں مقام ہے، جو یونیسکو کی عالمی میراث کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
اسمارا، اریٹیریا
افریقی ملکوں انگولا اور اریٹیریا کے دو مقامات کو یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے، ان میں ایک قدیمی شہر امبنازا کونگو ہے اور دوسرا اریٹیریا کا دارالحکومت اسمارا ہے۔ اسمارا کا جدید طرز تعمیر اُسے عالمی میراث میں شامل کرنے کا باعث بنا ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/M. Runkel
اٹلی، کروشیا اور مونٹی نیگرو کا قدیمی دفاعی نظام
پندرہویں صدی سے سترہویں صدی کے درمیان اٹلی، کروشیا اور مونٹی نیگرو کے قلعوں میں قائم کیا جانے والا دفاعی نظام حیران کن ہے۔ ان کے موجود اور محفوظ آثار کو عالمی میراث کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
تصویر: Municipality of Palmanova
اوکینوشیما جزیرہ، جاپان
چوتھی صدی عیسوی سے نویں صدی تک یہ جاپانی جزیرہ کوریا اور جاپان کے درمیان سمندری گزرگاہ پر ایک رہنما چوکی تھی۔ اسی جزیرہ پر سمندری دیوتا کی پوجا کا مندربھی واقع ہے۔ اسے انتہائی مقدس مقام تصور کیا جاتا تھا اور یہاں اسی لیے غیرملکیوں کا داخلہ بھی بند تھا۔
تصویر: World Heritage Promotion Committee/IMAKI Hidekazu
کُولانگسُو، چین
چین کے کولانگسبو جزیرے کو عالمی میراث میں شامل کیے جانے کی وجہ اس کا بین الاقوامی روپ ہے کیونکہ یہ کئی مختلف حکمرانوں کے نشانات محفوظ کیے ہوئے ہے۔ یہ جزیرہ جنوب مشرقی چین کے بندرگاہی شہر شیامن کے قریبی سمندر میں واقع ہے۔
تصویر: Cultural Heritage Conservation Center of THAD/Qian Yi
ہوہ شِل کی قدرتی منظر گاہ، چین
چین کے چِنگاہی اور تبت کے سطح مرتفع میں 4800 میٹر کی بلندی پر واقع ہوہ شِل کا علاقہ انتہائی کم آبادی کا حامل ہے۔ اس پہاڑی خطے کو چینی حکومت نے سن 1995 سے محفوظ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔ یونیسکو کی کمیٹی نے ارجنٹائن اور روس کے ایسے ہی محفوظ قدرتی علاقوں کو بھی عالمی میراث میں شامل کیا ہے۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/W. Bo
ٹاپوٹاپواٹیا، فرانس
فرانسیسی پولینیشیا کا علاقہ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔ اس جزیرہ نما علاقے کا یہ شہر ٹاپوٹاپواٹیا ایک مقدس مقام ہے۔ ماضی میں اسی شہر میں دیوتا اورو کے نام پر انسان قربان کیے جاتے تھے۔
تصویر: SCP/P.F. Amar
کُوجاٹا، ڈنمارک
ڈنمارک کے علاقے گرین لینڈ کی انتہائی حد کُوجاٹا ہے۔ اس علاقے کے لوگوں نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے صدیوں پرانی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ علاقہ نٰورسے اور اینُوئٹی لوگوں کا ہے۔
تصویر: Niels Christian Clemmensen/Christian K. Madsen
احمدآباد، بھارت
بھارت کے تاریخی شہر احمد آباد کے قدیمی حصے کو عالمی میراث کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ شہر بھارتی ریاست گجرات کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کے قدیمی حصے میں اٹھائیس عمارتیں خاص طور پر اہم تصور کی جاتی ہیں۔ ایران کے شہر یزد کے قدیمی حصے کو بھی عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/J.-H. Claude Wilson
کھومانی کا ثقافتی منظر، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ کے شمال میں آباد قدیمی لوگ کھومانی کہلاتے ہیں۔ یہ علاقہ نمیبیا اور بوٹسوانا کے سرحدی علاقے کے قریب ہے۔ کھومانی لوگ پتھر کے دور سے اس علاقے میں آباد خیال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: FOP Films/Francois Odendaal Productions
ہیبرون کا قدیمی علاقہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک یا غرب اردن کے گنجانٓ آباد شہر ہیبرون یا الخیل کے قدیمی حصے کو بھی عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی علاقے میں ابراہیمی مسجد مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں میں مقدس خیال کی جاتی ہے۔