یونیسیف کی جانب سے ’سال کی بہترین تصویر‘ کا ایوارڈ
امجد علی17 دسمبر 2015
مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر گیورگی لیکووسکی نے اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کا ’سال کی بہترین تصویر‘ کا انعام جیت لیا ہے۔ یونیسیف کی طرف سے یہ انعام گزشتہ پندرہ برسوں سے دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
پہلا انعام حاصل کرنے والی تصویر پناہ کے متلاشی دو روتے ہوئے بچوں کی ہے اور یہ تصویر یونان اور مقدونیہ کی مشترکہ سرحد پر اتاری گئی تھی۔ یونیسیف جرمنی کی سرپرستِ اعلیٰ ڈانیئلا شاٹ نے جمعرات کو برلن میں جیوری کے فیصلے کا جواز بتاتے ہوئے کہا:’’اس تصویر میں ایک ایسے لمحے کو قید کیا گیا ہے، جس میں یورپ کی گومگو کی کیفیت اور یورپ کی ذمے داری دونوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ آپ کو اپنی گرفت میں لینے والی، ذہانت سے اتاری گئی اور ناقابلِ یقین طور پر طاقتور تصویر ہے۔‘‘
ایسی تصاویر، جنہوں نے دنیا کو دہلا دیا
شامی مہاجر ایلان کُردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی تصویر لاکھوں مہاجرین کے مصائب کی علامت بن گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسی ہی دیگر آٹھ تصویریں جو عالمی سیاست میں علامتی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
’نیپام گرل‘
جنوبی ویت نام کے ایک گاؤں میں ’نیپام بم‘ کے دھماکے کے بعد خوفزدہ اور سہمے ہوئے بچے۔ اس بم سے متاثر ہونے والی نوسالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے کیونکہ ان میں آگ لگ چکی تھی۔ یوں وہ زندہ بچنے میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
گردوغبار سے اٹی ہوئی خاتون
11 ستمبر2001ء کو جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے تو تباہی کا عالم دیکھنے میں آیا۔ یہ تصویر بھی اسی وقت لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مارسی بارڈر نامی ایک ایسی خاتون گرد و غبار میں ڈھکی نظر آ رہی ہے، جو اس تباہی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی۔ بارڈر چھبیس اگست 2015ء کو معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی۔ وہ اسی سانحے کی اثرات کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP
ٹینک کے سامنے
پانچ جون 1989ء کو یہ چینی نوجوان اچانک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے دارالحکومت بیجنگ میں ٹینکوں کے کاروان کو رکنا پڑ گیا تھا۔ یہ تصویر اُس دن سے صرف ایک روز پہلے لی گئی تھی، جب چینی فوج نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہروں کو سنگدلی سے کچل دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون تھا۔
تصویر: Reuters/A. Tsang
بینو اوہنے زورگ کی ہلاکت
دو جون 1967ء کو ایران کے شاہ کی جرمنی آمد پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی موقع پر جرمن طالب علم بینو اوہنے زورگ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طالب علم کی ہلاکت کے باعث ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں بائیں بازو کی تحریک میں انتہا پسندانہ رجحانات شامل ہو گئے تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تھا تو اوہنے زورگ کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
تصویر: AP
کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ابراہم زپروڈر اس صدارتی قافلے کی کوریج پر متعین تھے اور انہوں نے کینیڈی پر اس حملے کے لمحے کو بھی فلمبند کر لیا تھا۔ فریم 313 میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گولی کینیڈی کے سر میں لگی۔ تاہم ابراہم زپروڈر اس فریم کو شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میونخ میں قتل عام
میونخ میں 1972ء میں منعقد ہوئے اولمپک مقابلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کے گیارہ ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ بعدازاں فلسطینی دہشت گرد گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے انہیں ہلاک بھی کر دیا تھا۔ اس تاریخی تصویر میں ایک اغوا کار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: dapd
افغان لڑکی
اسٹیو مککری کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ 1985ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی پاکستان میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہی تھی لیکن یہ تصویر افغانستان میں سوویت قبضے اور دنیا بھر میں افغان مہاجرین کی زبوں حالی کی ایک علامت بن گئی تھی۔ بارہ سالہ اس بچی کی شناخت 2002ء تک پوشیدہ ہی رہی تھی۔ اس سے قبل شربت گلہ نامی اس لڑکی نے اپنا یہ پورٹریٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
اس اعزاز پر شکریہ ادا کرتے ہوئے فوٹوگرافر گیورگی لیکووسکی نے کہا:’’مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ مَیں ایسے تمام بچوں کی تصاویر نہیں اُتار سکا اور اُن تمام آنسوؤں کو گرفت میں نہیں لے سکا، جو بچوں نے پناہ کی تلاش کے سفر میں بہائے ہیں۔‘‘
لیکووسکی نے بتایا کہ یہ سال خود اُن کے اپنے لیے بھی اور اُن کے ساتھی فوٹوگرافروں کے لیے بھی بہت مشکل سال تھا اور بعض اوقات وہ خود بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتے تھے۔ لیکووسکی کا کہنا تھا:’’پناہ کے متلاشیوں کی تکلیف اور پریشانی پولیس کی طرف سے آویزاں کی گئی تختیوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ لیکووسکی نے امید ظاہر کی کہ اُن کی تصاویر اس دنیا کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے دلوں کو چھوئیں گی اور وہ مل کر پناہ گزینوں کے بحران کا حل تلاش کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ دنیا اتنی طاقتور ضرور ہے کہ آسانی سے اس مسئلے کو حل کر سکے، ضرورت محض اچھی نیت اور ارادے کی ہے۔
یونیسیف کے اس مقابلے میں انعام پانے والے دیگر فوٹوگرافروں میں سویڈن کے ماگنُس وَینمان بھی ہیں، جنہوں نے بلقان کے رُوٹ پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کے سوئے ہوئے بچوں کی تصویر اُتاری ہے۔ اُن کی اس تصویر نے دوسرا بڑا انعام حاصل کیا۔ تیسرا انعام امریکی خاتون فوٹوگرافر ہائیڈی لیوین نے حاصل کیا، جن کی تصویر میں غزہ پٹی کے ایک زخمی باپ کو اپنے زخمی بیٹے کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔
انعام یافتہ تصاویر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یونیسیف جرمنی کی مجلسِ عاملہ کے رکن پیٹر ماتھیاس گیڈے نے کہا:’’یہ تصاویر ہمیں کتنا ہی کرب میں مبتلا کیوں نہ کرتی ہوں لیکن ہمیں ان کی ضرورت ہے اور وہ اس لیے کہ بہت سے لوگوں کو تکلیف کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے، جب وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ تصاویر ہی ہوتی ہیں، جو ہندسوں کو انسانوں اور اعداد و شمار کو بچوں کی شکل دیتی ہیں۔‘‘
یونیسیف اس مقابلے کا اہتمام معروف جریدے ’جیو‘ کے ساتھ مل کر گزشتہ پندرہ برسوں سے کر رہی ہے۔ اس سال یونیسیف اور ’جیو‘ کی جیوری نے اس مقابلے کی انعام پانے والی تصاویر کا انتخاب تیس ملکوں سے آئی ہوئی 909 تصاویر کو جانچنے کے بعد کیا۔