یوکرائنی تنازعہ: روس کی طرف سے ’متوازن‘ بھارتی موقف کی تعریف
27 فروری 2022
روس نے یوکرائن کے مسلح تنازعے میں بھارت کے موقف کو ’آزاد اور متوازن‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ بھارت نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
اشتہار
گزشتہ جمعرات کو شروع ہونے والے یوکرائن پر روس کے فوجی حملے کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی سربراہی میں پیش کردہ قرارداد میں ماسکو کی یوکرائن کے خلاف 'جارحیت‘ کی مذمت کی گئی تھی۔ جمعے کی شام یہ قرارداد اس لیے منظور نہ ہو سکی تھی کہ روس نے اسے ویٹو کر دیا تھا اور سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ملک چین کے علاوہ بھارت اور متحدہ عرب امارات نے بھی رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔
اشتہار
روسی سفارت خانے کی تعریفی ٹویٹ
بھارت نے اس روس مخالف قرارداد پر اپنی رائےا س لیے محفوظ رکھی تھی کہ نئی دہلی حکومت ماسکو اور بھارت کے مغربی اتحادی ممالک سے متعلق اپنی پالیسیوں میں بڑی احتیاط سے توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔ یوکرائن کی جنگ کے تناظر میں عالمی سلامتی کونسل میں ووٹنگ کے دوران بھارت کے اپنی رائے محفوظ رکھنے کو روس نے 'آزادانہ اور متوازن‘ موقف قرار دیا ہے۔
نئی دہلی میں روسی سفارت خانے نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ماسکو حکومت بھارت کے اس اقدام کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا، ''ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رائے شماری کے دوران بھارت کی پوزیشن کو بہت متوازن اور آزادانہ سمجھتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
روسی سفارت خانے نے اپنی ٹویٹ میں مزید لکھا، ''بہت خاص اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی اسی سوچ کے تحت روس بھارت کے ساتھ آئندہ بھی یوکرائن کی صورت حال سے متعلق قریبی مکالمت جاری رکھے گا۔‘‘
بھارت نے روسی عسکری چڑھائی کو اب تک 'فوجی مداخلت‘ نہیں کہا
بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کا یہ ملک 'کوآڈ‘ نامی اس گروپ کا حصہ بھی ہے، جس میں بھارت کے علاوہ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں اور جس کے قیام کا مقصد ماہرین کے مطابق چین کے علاقائی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔
اس پس منظر میں نئی دہلی حکومت مغربی دنیا کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ساتھ ہی اس نے روس کے خلاف بھی ووٹ نہ دیا۔ مزید یہ کہ بھارت نے اب تک یوکرائن میں فوجی مداخلت کے روسی اقدام کی کھل کر مذمت بھی نہیں کی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے اس عسکری چڑھائی کے لیے اپنے طور پر اب تک 'فوجی مداخلت‘ کے الفاظ تک استعمال نہیں کیے۔
روس میں جنگ مخالف مظاہرے
گرفتاری کے خطرے کے باوجود کئی روسی شہروں میں بے شمار لوگوں نے یوکرائن کی جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ روسی حکام نے ان مظاہرین کے خلاف فوری اقدامات کیے۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
’جنگ نہیں‘
سینٹ پیٹرزبرگ میں چوبیس فروری کے روز سینکڑوں افراد اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے جمع ہوئے۔ یہ مظاہرین ’جنگ نہیں‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ کئی روسی شہریوں نے یوکرائنی باشندوں کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر دیے ہیں۔ ان میں سرحد پار آباد خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
پولیس کا ردعمل
مظاہروں پر پابندی اور سخت سزاؤں کے خوف کے باوجود سماجی طور پر سرگرم افراد نے بتایا کہ چوالیس روسی شہروں میں عام شہری احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ماسکو (تصویر) کی طرح باقی تمام مقامات پر بھی پولیس نے موقع پر پہنچچ کر مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: EVGENIA NOVOZHENINA/REUTERS
مظاہرے اور گرفتاریاں
سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم روسی شہریوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سات سو سے زائد روسی باشندوں کو یوکرائنی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ تصویر ماسکو کی ہے، جہاں شہر کے مرکز میں واقع پشکن اسکوائر میں مظاہرین جمع ہوئے۔
تصویر: DENIS KAMINEV/REUTERS
یوکرائن کے ساتھ یک جہتی
’جنگ نہیں‘ اور ’فوجیوں کو واپس بلایا جائے‘، یہ ہیں وہ الفاظ جو اس تصویر میں ایک نوجوان خاتون کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر درج ہیں۔ یہ خاتون سینٹ پیٹرزبرگ میں کیے گئے احتجاج میں شریک تھی۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
مظاہرین کو پولیس نے تحویل میں لے لیا
مختلف شہروں میں حکام نے کووڈ انیس کی وبا کا سہارا لے کر بھی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کئی عینی شاہدین نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کو اپنے کیمروں بطور ثبوت ریکارڈ بھی کر لیا۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
حراست کے بعد بھی احتجاج
احتجاج میں شریک ایک روسی کارکن اپنے ہاتھ کے پچھلی طرف بنایا گیا امن کا نشان دکھاتے ہوئے۔ اس نے یہ نشان اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کے ایک ٹرک میں بیٹھے ہوئے بنایا۔
کلاؤڈیا ڈیہن (ع ح / م م)
تصویر: Anton Vaganov/REUTERS
6 تصاویر1 | 6
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی طرف سے تنقید
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت نے روس اور یوکرائن سے متعلق قرارداد کے حوالے سے جو رویہ اپنا، وہ کافی حد تک ناامید کر دینے والا تھا۔ جب سے روس نے یوکرائن پر فوجی حملے شروع کیے ہیں، بھارتی وزیر اعظم مودی روسی صدر پوٹن اور یوکرائنی صدر زیلنسکی دونوں ہی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں خونریزی اور طاقت کے استعمال پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔
خارجہ امور کے ماہر رچرڈ ہاس نے ایف ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ بھارت ''اس لیے محتاط ہے کہ وہ صدر پوٹن کو کسی بھی قیمت پر ناراض نہیں کرنا چاہتا، حالانکہ جو کچھ روس یوکرائن کے خلاف کر رہا ہے، وہ کھلی جارحیت ہے۔‘‘ رچرڈ ہاس کے بقول، ''جو کچھ بھارت نے کیا، وہ ناامید کر دینے والا اور کوتاہ بینی کا ثبوت ہے۔‘‘
جہاں تک امریکا کا تعلق ہے، تو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارت کی طرف سے سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کی حمایت نہ کیے جانے کے حوالے سے کہا، ''بھارت اور روس کے اپنے باہمی تعلقات ہیں، دفاع اور سکیورٹی کے شعبے میں بھی، جو ہمارے نہیں ہیں۔‘‘