یوکرائنی شہروں پر روسی کروز میزائلوں، توپوں سے مربوط حملے
26 فروری 2022
روسی فوج کی طرف سے یوکرائن کے دارالحکومت کییف سمیت کئی شہروں پر کروز میزائلوں اور توپوں سے مربوط حملے کیے جا رہے ہیں جبکہ ماسکو کے دستوں نے ڈیڑھ لاکھ کی آبادی والے یوکرائنی شہر میلیٹوپول پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
اشتہار
روسی فوج کے دعووں کے مطابق اس نے آج ہفتہ چھبیس فروری کے روز یوکرائن کے جنوب مغربی شہر میلیٹوپول پر قبضہ کر لیا۔ یوکرائنی حکام نے تاہم اب تک تصدیق نہیں کی کہ پیش قدمی کرتے ہوئے روسی دستوں نے میلیٹوپول پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے کییف سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اگر روسی فوج نے واقعی میلیٹوپول پر قبضہ کر لیا ہے، تو یہ یوکرائنی تنازعے میں ایسی پہلی پیش رفت ہو گی کہ جمعرات چوبیس فروری کے روز یوکرائن میں فوجی مداخلت کے آغاز کے بعد سے یوکرائن کا مقابلتاﹰ کافی زیادہ آبادی والے کوئی شہر ماسکو کے مسلح دستوں کے قبضے میں آ گیا ہو۔
کئی شہروں پر کروز میزائلوں سے حملے
یوکرائنی حکام اب تک تصدیق کر چکے ہیں کہ اس شدید تر ہوتے ہوئے تنازعے میں روسی فوج ملک کے کئی دیگر شہروں پر بھی توپ خانے اور کروز میزائلوں سے حملے شروع کر چکی ہے۔ اس دوران بحیرہ اسود کے کنارے واقع شہر ماریوپول، مشرق میں پولتاوا اور شمال مشرق میں سُومی جیسے شہروں پر بھی کئی کروز میزائل فائر کیے گئے۔
دارالحکومت کییف پر کیے جانے والے میزائل حملوں کے دوران ایک روسی میزائل ایک بڑی رہائشی عمارت پر گرا جبکہ حکومتی ذرائع اور روئٹرز نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کییف ہی میں ایک میزائل شہر کے ایک دوسرے حصے میں اور ایک ایئر پورٹ کے قریب گرا۔ ان حملوں میں ہلاکتوں کے بارے میں حکام نے تاحال کچھ نہیں بتایا۔
اشتہار
صدر زیلنسکی کا ملک کے دفاع کا عزم
مختلف خبر رساں اداروں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ کییف پر حملوں کے دوران شہر کے وسطی اور حکومتی دفاتر والی عمارات والے حصے میں آج فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
دریں اثناء یوکرائن کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف شہر کے مضافات میں اپنے دفتر سے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ یوکرائن 'روسی جارحیت‘ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ صدر زیلنسکی نے اس ویڈیو پیغام میں کہا، ''ہم اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہتھیار چھوڑیں گے نہیں۔ ہم اپنے ملک کا مسلسل دفاع کرتے رہیں گے۔‘‘
گرفتاری کے خطرے کے باوجود کئی روسی شہروں میں بے شمار لوگوں نے یوکرائن کی جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ روسی حکام نے ان مظاہرین کے خلاف فوری اقدامات کیے۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
’جنگ نہیں‘
سینٹ پیٹرزبرگ میں چوبیس فروری کے روز سینکڑوں افراد اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے جمع ہوئے۔ یہ مظاہرین ’جنگ نہیں‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ کئی روسی شہریوں نے یوکرائنی باشندوں کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر دیے ہیں۔ ان میں سرحد پار آباد خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
پولیس کا ردعمل
مظاہروں پر پابندی اور سخت سزاؤں کے خوف کے باوجود سماجی طور پر سرگرم افراد نے بتایا کہ چوالیس روسی شہروں میں عام شہری احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ماسکو (تصویر) کی طرح باقی تمام مقامات پر بھی پولیس نے موقع پر پہنچچ کر مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: EVGENIA NOVOZHENINA/REUTERS
مظاہرے اور گرفتاریاں
سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم روسی شہریوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سات سو سے زائد روسی باشندوں کو یوکرائنی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ تصویر ماسکو کی ہے، جہاں شہر کے مرکز میں واقع پشکن اسکوائر میں مظاہرین جمع ہوئے۔
تصویر: DENIS KAMINEV/REUTERS
یوکرائن کے ساتھ یک جہتی
’جنگ نہیں‘ اور ’فوجیوں کو واپس بلایا جائے‘، یہ ہیں وہ الفاظ جو اس تصویر میں ایک نوجوان خاتون کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر درج ہیں۔ یہ خاتون سینٹ پیٹرزبرگ میں کیے گئے احتجاج میں شریک تھی۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
مظاہرین کو پولیس نے تحویل میں لے لیا
مختلف شہروں میں حکام نے کووڈ انیس کی وبا کا سہارا لے کر بھی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کئی عینی شاہدین نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کو اپنے کیمروں بطور ثبوت ریکارڈ بھی کر لیا۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
حراست کے بعد بھی احتجاج
احتجاج میں شریک ایک روسی کارکن اپنے ہاتھ کے پچھلی طرف بنایا گیا امن کا نشان دکھاتے ہوئے۔ اس نے یہ نشان اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کے ایک ٹرک میں بیٹھے ہوئے بنایا۔
کلاؤڈیا ڈیہن (ع ح / م م)
تصویر: Anton Vaganov/REUTERS
6 تصاویر1 | 6
'شہری کییف کے دفاع میں مدد کریں‘
یوکرائنی حکام نے مسلسل شدید تر ہوتی جا رہی لڑائی اور روسی دستوں کی پیش قدمی کے تناظر میں کییف کے عام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھی ملکی دارالحکومت کے دفاع میں مدد کریں۔
اسی دوران روسی اور یوکرائنی دونوں حکومتوں نے یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ وہ مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ یہ روس کی طرف سے یوکرائن پر فوجی چڑھائی شروع کیے جانے کے بعد سے بظاہر ایسی پہلی امید ہے کہ یہ تنازعہ شاید اب بھی سفارتی ذرائع سے حل کیا جا سکتا ہے۔
یوکرائنی فضائیہ کی اعلیٰ کمان کے مطابق کییف سے جنوب مغرب کی طرف واسِلکیف کے مقام پر واقع ایک اہم ایئر بیس کے نزدیک بھی شدید لڑائی جاری ہے۔ اس یوکرائنی ایئر بیس پر روس نے اپنے چھاتہ بردار دستوں کے ذریعے حملہ کیا ہے۔
روسی حملے کے خلاف یوکرائن کا ردعمل کیسا ہے؟
اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ روسی افواج یوکرائنی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ حملے کے جواب میں یوکرائن میں کیا ہو رہا ہے یعنی حکومت، فوج اور شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟ یہ درج ذیل تصویر میں ملاحظہ کریں:
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
فوج کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ
روس نے بدھ 22 فروری کو مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹیسک اور لوہانسک میں فوجی دستوں کو ’امن قائم کرنے والے فوجی دستے‘ قرار دے کر داخل کیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو روس نے آزاد ریاستوں کے طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جمعرات کو روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ بھی کر دیا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن کو ’غیر فوجی‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوکرائنی فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images
’یوکرائن اپنا دفاع کرے گا‘
یوکرائنی وزیر دفاع دیمترو کُولیبا نے روسی فوجی کارروائی کو ایک بڑا حملہ قرار دیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ جیتے گا۔ اس خطے میں روس کے بعد سب سے بڑی فوج بھی یوکرائن کی ہے لیکن روسی عسکری طاقت کے سامنے یوکرائنی حیثیت ’بونے‘ جیسی ہے۔ اس تصویر میں یوکرائنی ٹینک ڈونیٹسک علاقے کے شہر ماریوپول میں داخل ہو رہے ہیں۔
تصویر: Carlos Barria/REUTERS
روسی حملے کا وقت علی الصبح
روس کے علی الصبح شروع کیے جانے والے حملے میں کییف، خارکیف اور اوڈیسا میں میزائل داغے گئے اور ان کے دھماکوں سے شہری جاگ اٹھے۔ روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ روسی شہری ہوابازی کی ایجنسی نے یوکرائنی فضائی زون کو فعال جنگی زون قرار دے دیا ہے۔ کییف کی زیرزمین ٹرین سسٹم کو خالی کر کے شہریوں کو اس میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تصویر: AFP via Getty Images
پہلے فضائی اور پھر زمینی حملہ
کییف (ایک گرا ہوا میزائل) سمیت دوسرے شہروں پر میزائل داغے جانے کے بعد روس اور بیلاروس کے علاوہ کریمیا سے روسی فوجی دستے یوکرائن میں داخل ہو گئے۔ روسی زبان میں کی گئی ایک جذباتی اپیل میں یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں فرار نہیں ہوں گے بلکہ ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے آزادی، زندگیوں اور بچوں کا بھی دفاع کریں گے۔
تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS
یوکرائنی شہریوں کا دوسرے مقامات کی جانب فرار
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے اور لوگوں بلاوجہ خوف و ہیجان میں مبتلا ہوئے بغیر گھروں میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس اعلان کے باوجود بے شمار یوکرائنی شہریوں نے فرار میں عافیت سمجھی ہے۔ لوگوں کی منتقلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔ اس تصویر میں مشرقی یوکرائن میں لوگ فرار ہو کر مغربی علاقے کی جانب جا رہے ہیں۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
خریداری کے لیے قطاریں
دارالحکومت کییف میں پانی اور خوراک کے حصول کے لیے اسٹورز پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ بعض لوگ محفوظ علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔ کئی افراد شہر میں رہتے ہوئے مورچوں یا بنکروں میں پناہ لینے کو مناسب خیال کرتے ہیں۔ کیش مشینوں پر بھی بھیڑ دیکھی گئی۔ یہ تصویر مغربی یوکرائنی شہر لاویو کی ہے۔ لوگوں کو موٹر کاروں میں ایندھن بھروانے کی فکر بھی لاحق ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
ملے جُلےجذبات
یوکرائنی عوام میں خوف اور بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک کئی یوکرائنی شہریوں کو یقین نہیں کہ روسی افواج ان کے ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ وسطی یورپی ممالک میں یوکرائنی مہاجرین کی آمد کی پیش بندی شروع ہے۔ انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ممکنہ انسانی بحران کے جنم لینے سے خبردار کیا ہے۔ تصویر میں یہ جوڑا مشکل فیصلہ کر کے پولینڈ یا ملک کے مغرب کی جانب روانہ ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
ہلاکتوں سے متعلق غیر واضح اعداد و شمار
یوکرائن کا کہنا ہے کہ روسی دستوں کی طرف سے چڑھائی کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ روس نے اپنی فوج کو پہنچنے والے جانی نقصان کے بارے میں اب تک مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
جمعرات کو رات گئے یوکرائنی صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ اب تک اس لڑائی میں یوکرائن کے 137 فوجی اور بہت سے عام شہری ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو چکے تھے۔
اس جنگ میں انسانی ہلاکتوں سے متعلق اب تک کے اعداد و شمار اس لیے بہت غیر واضح ہیں کہ مجموعی افراتفری کے عالم میں کسی بھی فریق کی طرف سے اب تک کے کوئی حتمی اور مصدقہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے اور کل جمعے اور آج ہفتے کے روز انسانی ہلاکتوں کی صورت حال بھی اب تک واضح نہیں۔