امریکی شہریوں کو فوراً یوکرائن چھوڑ دینے کا مشورہ
11 فروری 2022امریکی صدر جو بائیڈن نے متنبہ کیا ہے کہ مشرقی یورپ میں، ''بہت تیزی سے حالات خراب ہو سکتے ہیں '' اس لیے یوکرائن میں باقی بچے تمام امریکی شہریوں کو فوری طور پر ملک سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ماسکو یوکرائن پر حملہ کرتا ہے تو اس صورت میں وہ امریکیوں کو بچانے کے لیے وہاں فوج نہیں بھیجیں گے۔
روس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو جمع کر رکھا ہے تاہم اس کے باوجود وہ یوکرائن پر حملہ کرنے کے کسی بھی منصوبے کی تردید بھی کرتا رہا ہے۔ لیکن تازہ پیش رفت میں اس نے پڑوسی ملک بیلاروس کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کی ہیں اور یوکرائن نے روس پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ سمندر تک اس کی رسائی کو روک رہا ہے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ’سرخ لکیریں‘ نافذ کرنا چاہتا ہے کہ سابق سوویت یونین کا اس کا ہمسایہ ملک یوکرائن نیٹو میں شامل نہ ہونے پائے۔
امریکا نے کیا کہا؟
امریکی محکمہ خارجہ نے یوکرائن میں موجود تمام امریکی شہریوں پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ملک چھوڑ دیں۔ صدر جو بائیڈن نے این بی سی نیوز سے بات چیت میں کہا، ''امریکی شہریوں کو فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ا فواج میں سے ایک کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔ یہ بہت مختلف صورتحال ہے اور خطے میں چیزیں بہت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔''
ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی ایسی صورت حال پر غور کر رہے ہیں کہ جس میں امریکی شہریوں کو بچانے کے لیے انہیں فوج بھیجنی پڑ جائے۔ تو مسٹر بائیڈن نے جواب دیا: ''ایسا نہیں ہے۔ یہ تو ایک عالمی جنگ کی صورت حال میں ہو تا ہے کہ جب امریکی اور روسی ایک دوسرے پر گولی چلانا شروع کر دیں۔ ہم بالکل مختلف دنیا میں ہیں، جو اس سے قبل کبھی نہیں تھی۔''
صدر بائیڈن کے یہ بیانات ایک ایسے وقت آئے ہیں جب روس نے فائر ڈرل کے طور پر بیلاروس میں اپنے ٹینکوں کا گشت کروایا ہے۔ بیلاروس میں روسی فوج کی ان مشقوں پر نیٹو کی طرف سے بھی ایک تنبیہ جاری کی گئی ہے، جس سے خطے میں جنگ کو روکنے کے لیے مغربی کوششوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ماسکو اور کیف میں بات چیت ناکام
ادھر روس اور یوکرائن نے جمعرات کو رات دیر گئے اعلان کیا کہ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندی کے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے جو بات چیت فرانس اور جرمن حکام کے ساتھ ہوئی، اس میں فریقین کسی پیش رفت تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ ماسکو اور کیف کے درمیان یہ بات چیت جرمنی اور فرانس کی ثالثی سے ہو رہی تھی۔
ادھر نیٹو کا کہنا ہے کہ روس کی طرف سے میزائلوں، بھاری ہتھیاروں اور مشین گنوں سے لیس فوجیوں کو تعینات کرنا، سوویت یونین کے خاتمے کے تقریباً تین دہائیوں بعد، یورپ کے لیے یہ سب سے ''خطرناک لمحہ'' ہے۔
اس دوران عالمی رہنماؤں کی جانب سے یوکرائن کے موجودہ بحران اور اس پر پائی جانے والی کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارت کاری جاری ہے۔ جمعرات کے روز ہی جرمن چانسلر اولاف شولس نے خبردار کیا کہ، ''یورپی یونین کے اتحاد اور نیٹو کے ایک شراکت دار کے طور پر روس کو ہمارے اتحاد اور عزم کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔''
جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ''اس وقت جس چیز کا خطرہ ہے، وہ یورپ میں جنگ کو روکنے سے کم نہیں ہے۔'' انہوں نے خبردار کیا کہ اگر روسی فوجی یوکرائن پر حملہ کرتے ہیں تو ماسکو کے لیے سنگین سیاسی، اقتصادی اور اسٹریٹیجک نتائج برآمد ہوں گے۔ ''ہم امن چاہتے ہیں۔''
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا کہ یوکرائن کشیدگی کے درمیان یورپ کو دہائیوں میں اپنے سب سے بڑے سیکورٹی بحران کا سامنا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی)