یوکرائن تنازعہ، پابندیوں پر روس کا شدید ردعمل
31 جولائی 2014![](https://static.dw.com/image/17791360_800.webp)
روسی وزارت خارجہ نے بدھ کے دن ان اضافی پابندیوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان اقتصادی پابندیوں کے باعث نہ صرف یورپ میں توانائی سے متعلقہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ امریکا کے لیے بھی اس کے الٹے نتائج برآمد ہوں گے۔
روسی حکومت کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب مشرقی یوکرائن میں فوج نے باغیوں کے خلاف کامیاب پیشقدمی کرتے ہوئے Avdiyivka نامی علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ علاقہ روس نواز باغیوں کے گڑھ تصور کیے جانے والے شہر دونیٹسک سے صرف آٹھ میل ہی دور واقع ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرائن کے تنازعے میں ملوث ہونے پر امریکا نے روس کے خلاف سخت ترین اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ماسکو حکومت نے واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ روسی وزرات خارجہ کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی آزادانہ پالیسیاں اپنا لے، جو واشنگٹن حکومت کے لیے نامناسب ہوں۔
اس بیان میں یورپی صارفین کو بھی خبردار کیا ہے کہ روس کے توانائی، عسکری اور مالیات کے شعبہ جات پر پابندیوں کے اثرات انہیں ہی بھگتنا ہوں گے۔ روسی وزرات خارجہ نے ان پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سوچے سمجھے بغیر اٹھایا جانے والا یہ ایک غیر ذمہ درانہ قدم ہے، ’’اس سے یورپ کے توانائی کے شعبے میں قیمتیں بڑھ جائیں گی۔‘‘
جی سیون کا روس کو انتباہ
اس صورتحال میں ترقی یافتہ سات ممالک کے بلاک جی سیون نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی مدد کرنا ترک نہیں کرتا تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وائٹ ہاؤس سے جاری کیے گئے جی سیون کے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ روس کے پاس موقع ہے کہ وہ اب بھی تناؤ میں کمی لانے کی کوشش کرے۔
جی سیون کے اس اعلامیے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ملائشیائی طیارے کی جائے حادثہ پر فائر بندی کی جائے تا کہ اس مسافر بردار طیارے کی تباہی کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا دائرہ آگے بڑھایا جا سکے۔
ادھر ماسکو حکومت نے ایسے الزامات ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیے ہیں کہ اس نے مشرقی یوکرائن کے باغیوں کو ایسے میزائل فراہم کیے، جن سے انہوں نے ملائشیائی ایئر لائنز کے طیارے کو مبینہ طور پر مار گرایا تھا۔
دریں اثناء اس طیارے کی جائے حادثہ پر باغیوں اور کییف افواج کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں ڈچ اور آسٹریلوی تحقیقاتی افسران چوتھے دن بھی کریش کے مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ کییف میں موجود ڈچ ٹیم کے سربراہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ شدید لڑائی کے نتیجے میں آئندہ کچھ مزید دنوں تک جائے حادثہ پر پہنچنے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔