1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن: سرد جنگ کے بعد مشرق و مغرب کا سب سے بڑا شو ڈاؤن

عصمت جبیں15 مارچ 2014

یوکرائن کے خود مختار علاقے کریمیا میں کل اتوار کو ہونے والے متنازعہ عوامی ریفرنڈم کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور مشرق و مغرب کو سرد جنگ کے بعد آج تک کے سب سے بڑے شو ڈاؤن کا سامنا ہے۔

تصویر: Reuters

یوکرائن ایک مشرقی یورپی ریاست ہے۔ وہاں اپوزیشن کے مہینوں تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد ہفتوں پہلے حکومت تبدیل ہو گئی تھی۔ لیکن اس ملک میں پہلے اگر بحران دارالحکومت کییف میں تھا تو اب اس کا مرکز اس ملک کے خود مختار علاقے کریمیا میں منتقل ہو چکا ہے۔

کریمیا بحیرہ اسود کے علاقے کا وہ جزیرہ نما ہے جہاں زیادہ تر روسی زبان بولنے والے قریب دو ملین شہری رہتے ہیںتصویر: Reuters

یوکرائن کے مشرق میں واقع کریمیا کے علاقے میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ علاقہ روسی دستوں نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ یوکرائن میں خارکیف سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ روس کی خواہش ہے کہ اگر پورے کا پورا یوکرائن ماسکو کے زیر اثر نہیں رہا تو اب کریمیا میں اس کے اثر و رسوخ میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔

روس یہ دھمکی دے چکا ہے کہ اب تک تو اس کے دستے صرف کریمیا میں ہیں لیکن ماسکو کے پاس یہ حق ہے کہ وہ پورے یوکرائن میں روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ کے لیے کارروائی کرے۔ اس بیان کے محض چند گھنٹے بعد مشرقی یوکرائن میں وہ خونریز بدامنی شروع ہو گئی تھی، جس کا آج ہفتے کو دوسرا دن ہے اور جس میں اب تک تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ روس پر اس حد تک اثر انداز ہو سکیں کہ وہ کریمیا میں اتوار کو ہونے والے مجوزہ ریفرنڈم کو رکوا دے۔

کل جمعے کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کی لندن میں چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں بھی یہ اتفاق رائے نہ ہو سکا کہ یوکرائن اور کریمیا کے بحران کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ کریمیا بحیرہ اسود کے علاقے کا وہ جزیرہ نما ہے جہاں زیادہ تر روسی زبان بولنے والے قریب دو ملین شہری رہتے ہیں۔

ماسکو میں آج ہزاروں روسی باشندوں نے شہر کے وسطی حصے میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں یوکرائن میں روسی فوجی اور سیاسی مداخلت کی مذمت کی گئیتصویر: Reuters

یہ علاقہ اٹھارویں صدی سے روسی زاروں اور کریملن کی بحری فوجوں کا اڈہ رہا ہے۔ یہ علاقہ 1954ء میں سوویت رہنما خروشیف نے یوکرائن کو تحفے کے طور پر دے دیا تھا۔ اس ماہ کے اوائل میں کریمیا کی علاقائی پارلیمان نے اس خطے کی باقی ماندہ یوکرائن سے علیحدگی اور خود مختاری کی منظوری دے دی تھی۔ پھر وہاں پر سولہ مارچ کو ایسے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا جس میں ووٹروں کو یہ فیصلہ دینا ہے کہ آیا وہ کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کافی زیادہ امکان ہے کہ اس ریفرنڈم میں روس کے ساتھ الحاق کی حمایت کر دی جائے گی۔ امریکا اور یورپی یونین اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے انعقاد کی صورت میں روس کے خلاف سخت پابندیاں لگا دی جائیں گی۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ یوکرائن اور کریمیا کے بحران کا حتمی حل کب اور کیسے نکلے گا، یہ کہنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس بحران کے سیاسی حل کی کوششیں جلد کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اسی دوران ماسکو میں آج ہفتے کے روز ہزاروں روسی باشندوں نے شہر کے وسطی حصے میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں یوکرائن میں روسی فوجی اور سیاسی مداخلت کی مذمت کی گئی۔ مظاہرین نے صدر پوٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ کریمیا سے تمام روسی فوجی دستے واپس بلائیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں