یوکرائن: سرد جنگ کے بعد مشرق و مغرب کا سب سے بڑا شو ڈاؤن
15 مارچ 2014یوکرائن ایک مشرقی یورپی ریاست ہے۔ وہاں اپوزیشن کے مہینوں تک جاری رہنے والے احتجاج کے بعد ہفتوں پہلے حکومت تبدیل ہو گئی تھی۔ لیکن اس ملک میں پہلے اگر بحران دارالحکومت کییف میں تھا تو اب اس کا مرکز اس ملک کے خود مختار علاقے کریمیا میں منتقل ہو چکا ہے۔
یوکرائن کے مشرق میں واقع کریمیا کے علاقے میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ علاقہ روسی دستوں نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے۔ یوکرائن میں خارکیف سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ روس کی خواہش ہے کہ اگر پورے کا پورا یوکرائن ماسکو کے زیر اثر نہیں رہا تو اب کریمیا میں اس کے اثر و رسوخ میں کمی نہیں ہونی چاہیے۔
روس یہ دھمکی دے چکا ہے کہ اب تک تو اس کے دستے صرف کریمیا میں ہیں لیکن ماسکو کے پاس یہ حق ہے کہ وہ پورے یوکرائن میں روسی زبان بولنے والوں کے تحفظ کے لیے کارروائی کرے۔ اس بیان کے محض چند گھنٹے بعد مشرقی یوکرائن میں وہ خونریز بدامنی شروع ہو گئی تھی، جس کا آج ہفتے کو دوسرا دن ہے اور جس میں اب تک تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ روس پر اس حد تک اثر انداز ہو سکیں کہ وہ کریمیا میں اتوار کو ہونے والے مجوزہ ریفرنڈم کو رکوا دے۔
کل جمعے کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کی لندن میں چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں بھی یہ اتفاق رائے نہ ہو سکا کہ یوکرائن اور کریمیا کے بحران کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ کریمیا بحیرہ اسود کے علاقے کا وہ جزیرہ نما ہے جہاں زیادہ تر روسی زبان بولنے والے قریب دو ملین شہری رہتے ہیں۔
یہ علاقہ اٹھارویں صدی سے روسی زاروں اور کریملن کی بحری فوجوں کا اڈہ رہا ہے۔ یہ علاقہ 1954ء میں سوویت رہنما خروشیف نے یوکرائن کو تحفے کے طور پر دے دیا تھا۔ اس ماہ کے اوائل میں کریمیا کی علاقائی پارلیمان نے اس خطے کی باقی ماندہ یوکرائن سے علیحدگی اور خود مختاری کی منظوری دے دی تھی۔ پھر وہاں پر سولہ مارچ کو ایسے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا جس میں ووٹروں کو یہ فیصلہ دینا ہے کہ آیا وہ کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کافی زیادہ امکان ہے کہ اس ریفرنڈم میں روس کے ساتھ الحاق کی حمایت کر دی جائے گی۔ امریکا اور یورپی یونین اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے انعقاد کی صورت میں روس کے خلاف سخت پابندیاں لگا دی جائیں گی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ یوکرائن اور کریمیا کے بحران کا حتمی حل کب اور کیسے نکلے گا، یہ کہنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس بحران کے سیاسی حل کی کوششیں جلد کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اسی دوران ماسکو میں آج ہفتے کے روز ہزاروں روسی باشندوں نے شہر کے وسطی حصے میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں یوکرائن میں روسی فوجی اور سیاسی مداخلت کی مذمت کی گئی۔ مظاہرین نے صدر پوٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ کریمیا سے تمام روسی فوجی دستے واپس بلائیں۔