1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن سے مذاکرات خارج ازامکان ہیں، روس کا اصرار

عاطف بلوچ8 مارچ 2014

روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرائن کے معاملے پر عالمی طاقتوں کے ساتھ ایماندارنہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ادھر کییف کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ اس نے روس کے ساتھ مذاکرات کے لیے رابطہ گروپ بنانا شروع کر دیا ہے۔

تصویر: Reuters

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ہفتے کے دن ایک نشریاتی خطاب میں کہا ہے کہ ماسکو حکومت یوکرائن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایماندانہ، ٹھوس اور باہمی احترام پر مبنی رشتے پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لاوروف کے اس بیان کے تناظر میں کہا ہے کہ عالمی طاقتوں سے ان کی مراد مغربی ممالک ہیں۔ لاوروف نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرائن کے بحران کے لیے با معنی مذاکرات کرنے ہیں تو روس کے کردار کو مسخ کر کے پیش نہ کیا جائے۔

اپنے تاجک ہم منصب کے ساتھ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ لاوروف کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تنازعہ روس کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ ماسکو حکومت کی وارننگز کو نظر انداز کرنے کی باعث وجود میں آیا ہے۔ لاوروف نے یوکرائن کی عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے روس کسی ’کٹھ پتلی حکومت‘ سے بات چیت نہیں کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کییف حکومت کو ’انتہا پسندوں‘ کی طرف سے احکامات دیے جا رہے ہیں۔

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروفتصویر: Reuters

ادھر یوکرائن کے خو دمختار علاقے کریمیا میں روسی فوجیوں کی تعداد بڑھا دیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ کییف کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کی شدید مذمت کے باوجود کریمیا میں روس کی افواج کی تعداد کو دو گنا کر دیا گیا ہے۔

یوکرائن کے عبوری وزیر خارجہ Andrii Deshchytsia نے کہا ہے کہ جزیرہ نما کریمیا کی پارلیمنٹ کی طرف سے اس علاقے کا روس کے ساتھ الحاق کرنے سے متعلق ریفرنڈم کرنے کے منصوبے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ کریمیا کی پارلیمنٹ کے مطابق انہیں اس ریفرنڈم کے انعقاد سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔ یہ ریفرنڈم سولہ مارچ کو منعقد کرایا جائے گا۔

یوکرائنی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ روس کو چاہیے کہ وہ کریمیا میں بین الاقوامی مبصرین کو جانے کی اجازت دے۔ دو روز قبل ہی مسلح افراد نے سلامتی اور تعاون کے یورپی ادارے OSCE کے معائنہ کاروں کو کریمیا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ تاہم اس یورپی ادارے نے کہا ہے کہ اس کے معائنہ کار ایک مرتبہ پھر بروز ہفتہ کریمیا میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔

ایک اور پیشرفت میں امریکی صدر باراک اوباما اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسی بحران کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اس گفتگو میں صدر اوباما نے چانسلر میرکل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ واشنگٹن حکومت یوکرائن کے معاملے پر یورپی مؤقف کی حمایت کرتی ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اس بحران کے حل کے لیے ماسکو حکومت کریمیا میں بین الاقوامی غیر جانبدار مبصرین کی تعیناتی کی اجازت دے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں