یوکرائن: صدر پوٹن اور ان کے وزیر خارجہ پر پابندیوں کا امکان
25 فروری 2022
یورپی یونین کی جانب سے روسی صدر پر پابندیوں کا امکان ہے۔ دوسری جانب روس نے جمعہ پچیس فروری کو بھی یوکرائنی دارالحکومت پر میزائل داغنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یوکرئن سے ہزاروں افراد ہمسایہ ممالک میں داخل ہو گئے ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کے قریبی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یونین روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور وزیرِ خارجہ سیرگئی لاوروف پر کسی بھی وقت پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ان کے اثاثوں کو منجمد کرنے پر یونین کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ ان پابندیوں کے اعلان کا وقت ظاہر نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب یوکرائن کی حکومت نے شہر کے مکینوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پٹرول بم بنانا شروع کر دیں۔ سارے شہر کی پناہ گاہوں میں لوگوں کے ہجوم جمع ہو گئے ہیں۔ شہر میں وقفے وقفے سے سائرن بھی بج رہے ہیں۔ کییف کے مکینوں میں خوف و ہراس اور بے یقینی پائی جاتی ہے۔
کییف کے میئر کا کہنا ہے کہ شہر کی صورت حال کو خراب کرنے والے عناصر نے شہر کے اندر پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس دوران روسی فوج نے کییف سے سات کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک اہم فوجی ہوائے اڈے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
کییف کے میئر کا بیان
باکسنگ کے سابق عالمی چیمپیئن ویتالی کلیٹچکو اس وقت یوکرائن کے دارالحکومت کییف کے ناظم یا میئر ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ سارا شہر اس وقت دفاعی مُوڈ اختیار کر چکا ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازین وقفے وقفے سے سنائی دے رہی ہیں۔
میئر نے یہ بھی کہا کہ شہر میں روس نواز فسادی داخل گئے ہیں، جو کسی بھی وقت بدامنی کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔
کییف کے میئر نے یہ بھی کہا کہ دشمن کی خواہش ہے کہ ان کے شہر کو گھٹنے کے بل جھکا دیا جائے۔ تیس لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں چند ہزار افراد ہی زیرزمین میٹرو کے ریلوے اسٹیشنوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سارے ملک سے لوگوں پناہ کے لیے پولینڈ، رومانیہ، ہنگری اور سلوواکیہ کا رخ کیے ہوئے ہیں۔
فوجی ہوائی اڈے پر قبضے کا دعویٰ
یوکرائنی دارالحکومت سے صرف سات کلومیٹر یا چار میل سے بھی کم کی دوری پر نواحی علاقے میں ایک بڑا فوجی ہوائی اڈہ واقع ہے اور اس پر روسی فوج نے قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ اڈہ ہوسٹمل کے مقام پر ہے اور اسی کا نام انتونوف ایئرپورٹ ہے۔
روسی حملے کے خلاف یوکرائن کا ردعمل کیسا ہے؟
اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ روسی افواج یوکرائنی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ حملے کے جواب میں یوکرائن میں کیا ہو رہا ہے یعنی حکومت، فوج اور شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟ یہ درج ذیل تصویر میں ملاحظہ کریں:
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
فوج کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ
روس نے بدھ 22 فروری کو مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹیسک اور لوہانسک میں فوجی دستوں کو ’امن قائم کرنے والے فوجی دستے‘ قرار دے کر داخل کیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو روس نے آزاد ریاستوں کے طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جمعرات کو روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ بھی کر دیا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن کو ’غیر فوجی‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوکرائنی فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images
’یوکرائن اپنا دفاع کرے گا‘
یوکرائنی وزیر دفاع دیمترو کُولیبا نے روسی فوجی کارروائی کو ایک بڑا حملہ قرار دیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ جیتے گا۔ اس خطے میں روس کے بعد سب سے بڑی فوج بھی یوکرائن کی ہے لیکن روسی عسکری طاقت کے سامنے یوکرائنی حیثیت ’بونے‘ جیسی ہے۔ اس تصویر میں یوکرائنی ٹینک ڈونیٹسک علاقے کے شہر ماریوپول میں داخل ہو رہے ہیں۔
تصویر: Carlos Barria/REUTERS
روسی حملے کا وقت علی الصبح
روس کے علی الصبح شروع کیے جانے والے حملے میں کییف، خارکیف اور اوڈیسا میں میزائل داغے گئے اور ان کے دھماکوں سے شہری جاگ اٹھے۔ روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ روسی شہری ہوابازی کی ایجنسی نے یوکرائنی فضائی زون کو فعال جنگی زون قرار دے دیا ہے۔ کییف کی زیرزمین ٹرین سسٹم کو خالی کر کے شہریوں کو اس میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تصویر: AFP via Getty Images
پہلے فضائی اور پھر زمینی حملہ
کییف (ایک گرا ہوا میزائل) سمیت دوسرے شہروں پر میزائل داغے جانے کے بعد روس اور بیلاروس کے علاوہ کریمیا سے روسی فوجی دستے یوکرائن میں داخل ہو گئے۔ روسی زبان میں کی گئی ایک جذباتی اپیل میں یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں فرار نہیں ہوں گے بلکہ ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے آزادی، زندگیوں اور بچوں کا بھی دفاع کریں گے۔
تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS
یوکرائنی شہریوں کا دوسرے مقامات کی جانب فرار
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے اور لوگوں بلاوجہ خوف و ہیجان میں مبتلا ہوئے بغیر گھروں میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس اعلان کے باوجود بے شمار یوکرائنی شہریوں نے فرار میں عافیت سمجھی ہے۔ لوگوں کی منتقلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔ اس تصویر میں مشرقی یوکرائن میں لوگ فرار ہو کر مغربی علاقے کی جانب جا رہے ہیں۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
خریداری کے لیے قطاریں
دارالحکومت کییف میں پانی اور خوراک کے حصول کے لیے اسٹورز پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ بعض لوگ محفوظ علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔ کئی افراد شہر میں رہتے ہوئے مورچوں یا بنکروں میں پناہ لینے کو مناسب خیال کرتے ہیں۔ کیش مشینوں پر بھی بھیڑ دیکھی گئی۔ یہ تصویر مغربی یوکرائنی شہر لاویو کی ہے۔ لوگوں کو موٹر کاروں میں ایندھن بھروانے کی فکر بھی لاحق ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
ملے جُلےجذبات
یوکرائنی عوام میں خوف اور بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک کئی یوکرائنی شہریوں کو یقین نہیں کہ روسی افواج ان کے ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ وسطی یورپی ممالک میں یوکرائنی مہاجرین کی آمد کی پیش بندی شروع ہے۔ انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ممکنہ انسانی بحران کے جنم لینے سے خبردار کیا ہے۔ تصویر میں یہ جوڑا مشکل فیصلہ کر کے پولینڈ یا ملک کے مغرب کی جانب روانہ ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگورسیا کوناشنکوف نے ہوسٹمل ملٹری ہوائی اڈے پر قبضے کا اعلان کیا۔ اس قبضے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جمعہ پچیس فروری کو دو سو ہیلی کاپٹر اس ہوائی اڈے پر اترنے میں کامیاب ہوئے اور دو سو سے زائد یوکرائنی فوج کے خصوصی دستے کے فوجیوں کو ہلاک بھی کیا گیا۔ میجر جنرل کوناشنکوف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہوسٹمل ایئرپورٹ پر قبضے کی مہم میں کوئی روسی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔
قبل ازیں یوکرائن کے وزیر دفاع بین والیس کا کہنا تھا کہ روسی فوج کی ہوائی اڈے پر قبضے کی اب تک کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے روسی فوج کے سبھی دعوؤں کو فریب قرار دیا۔ بین والس کا یہ بھی کہنا ہے کہ علیحدگی پسند مشرقی یوکرائن کے علاقوں میں بھی روسی فوج ملکی فوج کی اگلی صفوں میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔روس پر عائد نئی پابندیاں کتنی شدید ہیں؟
اشتہار
سب سے پہلا ہدف
یوکرائن کے صدر وولودومیر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ ماسکو حکومت کے حملے کا اولین ٹارگٹ ہیں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی وہ کییف میں ہی قیام کریں گے۔ دوسری جانب صدر زیلینسکی کے ایک مشیر نے کہا ہے کہ ان کا ملک روس کے ساتھ تمام معاملات پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔
مذاکرات کا مطالبہ روس نے جنگ شروع کرنے سے قبل کر رکھا تھا۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ یوکرائنی فوج کے پوری طرح ہتھیار پھینک دینے تک مذاکرات شروع کرنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔
تازہ ترین یہ ہے کہ روس مذاکرات کے لیے اپنا وفد بیلاروس روانہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ جنگ سے قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی کہہ چکے ہیں کہ یوکرائن ایک غیر قانونی ریاست ہے، جسے روسی سرزمین میں سے کاٹ کر تخلیق کیا گیا ہے۔ یوکرائنی عوام کا کہنا ہے کہ روسی صدر ان کے ملک کی ہزاروں سالہ پرانی تاریخ کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔