یوکرائن میں لاکھوں کا اجتماع، صدارتی استعفے کا مطالبہ
9 دسمبر 2013یوکرائن کے یہ احتجاجی مظاہرین حکومت مخالف اور یورپ نواز ہیں۔ نومبر کے آخر میں شدت اختیار کر جانے والے اُن کے مظاہروں کی وجہ صدر وکٹر یانُوکووچ کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدہ طے کرنے سے انکار تھا۔ تب سے اب تک ان شہریوں کے احتجاج میں یورپی یونین کے جھنڈے دیکھنے کو اور یوکرائن کا قومی ترانہ سننے کوملتا ہے۔ یہ مظاہرین یوکرائن کے روس کی طرف سیاسی جھکاؤ کے بھی خلاف ہیں۔
کییف میں کل اتوار کا احتجاجی مظاہرہ سن دو ہزار چار کے نارنجی انقلاب کے بعد سے آج تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ ان مظاہرین نے شہر کے آزادی اسکوائر میں لگا سابق سوویت یونین کے بانی رہنما لینن کا ایک مجمسہ بھی گرا دیا تھا اور نعروں کی صورت میں صدر یانُوکووچ کو یہ پیغام دیا گیا تھا: ’’اگلی باری تمہاری ہے۔‘‘ اس پر صدر یانُوکووچ نے کہا تھا کہ یوکرائن کے خفیہ ادارے اس بارے میں تحقیقات کریں گے کہ مظاہرین کے رہنماؤں نے ان شہریوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کی ترغیب دی۔
اپوزیشن کے بقول اتوار کے مظاہرے میں پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ غیر جانبدار مبصرین کے بقول یہ تعداد تین لاکھ کے قریب رہی۔ ان یورپ نواز مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے ابھی بھی شہر میں حکومتی دفاتر کو جانے والے راستے بند کر رکھے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے بلدیاتی انتظامیہ کی مرکزی عمارت پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔
آج پیر کو پہلے پولیس کی بسوں کی ایک لمبی قطار میں سوار داخلی سلامتی کے ذمہ دار دستوں کو کییف میں عوامی مظاہرے کی جگہ والے علاقے کی طرف جاتے دیکھا گیا۔ اس کے بعد یہ رپورٹیں ملیں کہ ان سکیورٹی دستوں نے شہری انتظامیہ کی مرکزی عمارت کے باہر پوزیشنین سنبھال لی ہیں۔ کئی ماہرین کے بقول یوکرائن میں اب نئی پرتشدد جھڑپوں کا خطرہ کافی زیادہ ہو گیا ہے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ آج پیر کو اس الٹی میٹم کا آخری دن ہے، جو ایک عدالت نے مظاہرین کو سرکاری عمارت پر قبضہ ختم کرنے کے لیے دیا تھا۔ اسی دوران مظاہرین کے رہنماؤں نے احتجاجی کارکنوں کو آج ہی یہ مشورہ دیا کہ وہ شہری انتظامیہ کی عمارت پر کئی دنوں سے جاری قبضہ ختم کر دیں۔
ادھر برسلز سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق یورپی کمیشن نے آج بتایا کہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار کیتھرین ایشٹن کل منگل کے روز دو دن کے دورے پر یوکرائن جائیں گی۔ ایشٹن کی وہاں سیاسی بحران کے تمام بڑے فریقوں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔