1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں مظاہرے، امریکا کا پابندیوں پر غور

ندیم گِل12 دسمبر 2013

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ یوکرائن میں اپوزیشن کے احتجاجی مظاہروں پر حکومتی کریک ڈاؤن کے ردِ عمل میں واشنگٹن انتظامیہ مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے جن میں ممکنہ پابندیاں بھی شامل ہیں۔

تصویر: Reuters

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے: ’’ہم پالیسی آپشنز پر غور کر رہے ہیں جن میں پابندیاں بھی شامل ہیں، ظاہر ہے اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن میں تفصیلات بیان نہیں کر سکتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ہمارے سامنے متعدد پہلو کھُلے ہیں لیکن ابھی ایسا مرحلہ نہیں آیا۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے یوکرائن میں اپنے ہم منصب پافلو لیبیدیف کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ اس گفتگو میں پینٹاگون کے سربراہ نے کییف حکومت کو خبردار کیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف کسی بھی طرح کی عسکری فورس استعمال نہ کی جائے اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔

پینٹا گون کے مطابق چک ہیگل نے لیبیدیف کے ساتھ بات چیت میں مظاہرے روکنے کی کوششوں میں فوج کی کسی بھی طرح کی شمولیت کے ممکنہ نقصانات کی وضاحت کی۔

امریکی وزیر دفاع چک ہیگلتصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

محکمہ دفاع کے نائب ترجمان کارل وُوگ کے مطابق ہیگل نے لیبیدیف کو خبردار کیا کہ یوکرائن کے شہریوں کے خلاف کسی بھی طریقے سے مسلح افواج کو استعمال نہ کیا جائے۔

امریکا نے یوکرائن میں پرتشدد واقعات کی مذمت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ صدر وکٹر یانوکووچ عوام کے احتجاج کے حق کو تسلیم کریں۔

قبل ازیں یوکرائن کے صدر وکٹر یانوکووچ نے کہا تھا کہ پرُامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کبھی نہیں کیا جائے گا۔ ان کا یہ وعدہ دارالحکومت کییف کے آزادی اسکوائر پر موجود مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے گھنٹوں بعد سامنے آیا۔

یانوکووچ نے مظاہرین کو بات چیت کی پیش کش بھی کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ حکومت کی تحلیل کے بعد ہی مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

یوکرائن میں ان مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا تھا جب صدر وکٹر یانُوکووِچ نے یورپی یونین کے ساتھ وسیع تر تعلقات کے لیے کئی سالہ کوششوں کے بعد باقاعدہ معاہدے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بجائے وہ روس کے ساتھ تعلقات پر توجہ دے رہے تھے۔

دوسری جانب کییف حکومت نے یورپی یونین سے تقریباً 20 ارب یورو کی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم میکولا آزاروف نے یورپی یونین کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ روکے جانے کے تناظر میں کہا ہے کہ یہ معاملہ اس مالی تعاون سے حل کیا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں