1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: یوکرائن میں پھنسے طلبہ کی واپسی کے لیے وزراء روانہ

جاوید اختر، نئی دہلی
28 فروری 2022

روس کی فوجی کارروائی کے باعث یوکرائن میں پھنسے بھارتی اسٹوڈنٹس کو واپس لانے کے لیے مرکزی وزراء کی ایک ٹیم روانہ ہورہی ہے۔ یوکرائن میں اب بھی سولہ ہزار بھارتی طلبہ پھنسے ہیں۔ بھارت میں یہ معاملہ سیاسی رخ اختیار کرگیا ہے۔

Indien Neu-Delhi | Angehörige von Studenten in Ukraine vor russische Botschaft
تصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں پیر کے روز ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں یوکرائن میں پھنسے ہوئے بھارتی طلبہ کو بحفاظت نکالنے کے لیے خصوصی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق جنگ زدہ یوکرائن میں پھنسے ہوئے طلبہ کی مدد اور انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے اس کے پڑوسی ملکوں سے خصوصی مہم شروع کی جارہی ہے اور اس کی نگرانی کے لیے چار وفاقی وزراء کو مختلف ملکوں میں بھیجا جارہا ہے۔ ان وزراء کو بھارت کے خصوصی سفیر کے طور پر بھیجا جارہا ہے۔

یوکرائن میں پھنسے ہزاروں بھارتی طلبہ کی پریشان کن حالت

جن وزراء کو بھیجا جارہا ہے ان میں پٹرولیم کے وزیر ہردیپ پوری، سول ایوی ایشن کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا، قانون و انصاف کے وزیر کرن رجیجو اور وزیر ٹرانسپورٹ و شاہراہ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ شامل ہیں۔

قبل ازیں اتوار کے روز بھی وزیر اعظم مودی کی صدارت میں ایک اجلاس میں یوکرائن کے بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ طلبہ کو جنگ زدہ ملک سے واپس لانا اس کی اولین ترجیح ہے۔ واضح رہے اس وقت تقریباً سولہ ہزار بھارتی طلبہ یوکرائن میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بنکروں، بم شیلٹروں یا اپنے ہاسٹل کے تہہ خانوں میں پناہ لے رکھی ہے، جہاں ان کی حالت پریشان کن بتائی جارہی ہے۔

بہت سے خوش قسمت طلبہ وطن لوٹ آئے ہیںتصویر: Manish Kumar

طلبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات

بھارتی طلبہ یوکرائن کے پڑوسی ممالک رومانیہ، ہنگری، سلوواکیہ اور پولینڈ کے راستے وطن واپس لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض طلبہ نے فون پر بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پریشانی کے عالم میں پیدل ہی سرحد تک تو پہنچ گئے لیکن وہ سرحد پار نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ یوکرائنی حکام ان کی مد د نہیں کررہے ہیں۔

متعدد طلبہ نے بتایا کہ انہیں مبینہ طورپر ہراساں کیا جارہا ہے اور پولینڈ کی سرحد پر یوکرائنی محافظوں نے انہیں مارا پیٹا اور سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ بعض طلبہ نے ان واقعات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں یونیفارم میں ملبوس ایک محافظ کو ایک طلبہ کو پیچھے سے دھکے مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا یہ طالب علم بھارتی تھا یا نہیں۔

دریں اثناء  یوکرائن سے 249 بھارتی طلبہ اور شہریوں کو لے کر رومانیہ کے راستے پانچواں طیارہ آج دہلی پہنچا۔ دہلی پہنچنے والے ایک طالب علم نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ گوکہ حکومت نے ہماری بہت مدد کی لیکن سب سے بڑ امسئلہ یوکرائن کی سرحد پار کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی بہت سارے طلبہ یوکرائن کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔

ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی میں یوکرائن میں پھنسے ہوئے بھارتی طلبہ کو بحفاظت نکالنے کے لیے خصوصی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیاتصویر: PIB Govt. of India

معاملے میں سیاسی رنگ

یوکرائن میں پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ اس وقت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں کسی بھی مسئلے کو اپنے حق میں ووٹ میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔

اپوزیشن پارٹیوں نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی پر طلبہ کی بے بسی اور امداد کی اپیلوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دینے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

اپوزیشن کانگریس کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے الزام لگایا کہ حکومت طلبہ کی آسان واپسی کے لیے کچھ بھی نہیں کررہی ہے۔ انہوں نے یوکرائن میں پھنسی ہوئی ایک طالبہ کی اپیل سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ گریما نامی خاتون ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں، '' کوئی بھی مدد کے لیے ان کی اپیلوں پر کان نہیں دھر رہا ہے۔ ہم ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں اور کوئی بھی ہماری مدد نہیں کررہا۔ مجھے نہیں معلوم ہمیں کوئی مدد مل بھی سکے گی یا نہیں۔‘‘

پریانکا گاندھی، جنہوں نے یو پی اسمبلی انتخابات میں 'بیٹی ہوں، کرسکتی ہوں ‘  کا نعرہ دیا ہے، نے اپنے بیان میں کہاکہ اس طرح کے واقعات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ انہوں نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا،  ''خدا را کچھ کیجیے، ان بچوں کو بھارت لانے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں کیجیے۔ میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ ان بچوں کو باحفاظت واپس لانے کے لیے آپ تمام ممکنہ کوشش کریں۔‘‘ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اسی طرح کے مطالبات کیے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں