1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن کا بحران، بھارتی شہری اور طلبہ پریشان

جاوید اختر، نئی دہلی
22 فروری 2022

بھارت سرکار نے یوکرائن میں زیر تعلیم بھارتی طلبہ کو جلد از وطن واپس لوٹ آنے کا مشورہ دیا ہے۔ مشرقی یوکرائن کے دو صوبوں کی آزادی تسلیم کرنے اور وہاں فوج بھیجنے کے صدر پوٹن کے اعلان نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔

Indien Familienangehörige des in der Ukraine studierenden Faizal Khan
سائرہ یوکرائن میں زیر تعلیم اپنے بیٹے فیصل کے لیے کافی فکرمند ہیںتصویر: Privat

اعلی تعلیم حاصل کرنے اور بالخصوص ڈاکٹر بننے کے خواہش مند ہزاروں بھارتی طلبہ یوکرائن کی مختلف ریاستوں میں میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔لیکن پیر کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے یوکرائن کے دو صوبوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کی آزادی کو تسلیم کرنے اور وہاں فوج بھیجنے کے اعلان کے بعد بھارتی طلبہ اور ان کے سرپرستوں کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔

محمد فیصل خان بھی ایسے بیس ہزار سے زائد طلبہ میں سے ایک ہیں جو یوکرائن میں میڈیکل یا دیگر شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ فیصل فرانکسک نیشنل میڈیکل یونیورسٹی میں پہلے سال کے طالب علم ہیں۔ یوکرائن بحران میں اضافہ کے بعد فیصل کے والدین بھی کافی پریشان ہیں۔

فیصل کی والدہ سائرہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے روس اور یوکرائن کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، اپنے بیٹے کے حوالے سے ان کی فکر بھی بڑھتی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ گوکہ فون پر اپنے بیٹے سے ان کی بات چیت ہوئی ہے لیکن ایک خوف انہیں مسلسل ستا رہا ہے۔

بیس ہزار سے زائد بھارتی طلبہ یوکرائن میں میڈیکل یا دیگر شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیںتصویر: Fotolia/kasto

فیصل نے گزشتہ برس دسمبر میں یوکرائن میں داخلہ لیا تھا۔ سائرہ بتاتی ہیں کہ یوکرائن کا بحران بڑھنے کی وجہ سے بچوں میں تناؤ بڑھ رہا ہے،''ہم انہیں روز ویڈیو یا واٹس ایپ کال کر کے صورت حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ سے کہا ہے کہ جو بچے اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں وہ جا سکتے ہیں۔

سائرہ کہتی ہیں کہ بچے اگر آنا بھی چاہیں تو فلائٹ دستیاب نہیں ہے اور یہاں آنے کے بعد ان کی پڑھائی بھی متاثر ہو گی۔انہیں یہ فکر بھی ہے کہ اگر آن لائن کلاس بھی نہیں ہو سکی تو ان کے بیٹے کے مستقبل کا کیا ہو گا جبکہ ایک سال کی فیس وہ پہلے ہی ادا کر چکی ہیں۔

کرایہ بھی ایک بڑا مسئلہ

ایسے بھارتی طلبہ جو یوکرائن چھوڑنا چاہتے ہیں ان کے سامنے فلائٹ کا کرایہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

فرانکسک نیشنل میڈیکل یونیورسٹی میں تیسرے سال کے طالب علم ہرش گوئل نے اپنے بلاگ میں پریشان کن صورت حال کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حالانکہ بھارت سرکار نے طلبہ کو یوکرائن چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے لیکن فی الحال ایسا کرنا ممکن نہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ یونیورسٹیاں ہمیں اس کی اجازت نہیں دے رہی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ فلائٹ کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔ ایرلائنز نے بھارت کے لیے ٹکٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے کردی ہے جبکہ پہلے یہ صرف 30 ہزار روپے تھی، ''ہم میں سے بیشتر طلبہ اتنا زیادہ کرایہ برداشت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے حکومت سے اس کا کوئی حل تلاش کرنے کی اپیل کی ہے۔

'اپنی سلامتی کے خاطر یوکرائن چھوڑ دیں'

بھارت نے منگل 22 فروری کو ایک بار پھر ایک ایڈوائزری جاری کرکے یوکرائن میں زیر تعلیم بھارتی طلبہ کو اپنی سلامتی کے خاطر عارضی طور پر یوکرائن چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔

یوکرائن میں بھارتی سفارت خانے نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،''طلبہ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے مفاد میں، یوکرائن عارضی طور پر چھوڑ دیں۔وہ اس کے لیے یونیورسٹی سے باضابطہ تصدیق کا انتظار نہ کریں۔‘‘ کیف میں بھارتی سفارت خانے نے اتوار کے روز بھی ایک ایڈوائزری جاری کرکے بھارتی طلبہ اور شہریوں کو ملک چھوڑ دینے کے لیے کہا تھا۔

خصوصی پروازوں کا انتظام

بھارتی وزارت داخلہ نے نئی دہلی میں بتایا کہ جو لوگ یوکرائن سے وطن واپس آنا چاہتے ہیں ان کے لیے اضافی پروازوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ منگل کے روز ایئر انڈیا کا ایک طیارہ یوکرائن کے لیے روانہ ہوا۔ اس طیارے میں 200 مسافروں کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد 24 اور 26 فروری کو بھی دو طیارے یوکرائن جائیں گے۔

پیر کے روز اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کے دوران بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے بتایا کہ اس وقت یوکرائن کے سرحدی علاقوں سمیت مختلف حصوں میں بیس ہزار سے زائد بھارتی طلبہ اور شہری مقیم ہیں اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں