امریکا اور نیٹو کا بحیرہء روم میں بحری مشقوں کا اعلان
22 جنوری 2022
امریکا کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کا ان خدشات سے کوئی تعلق نہیں کہ روس یوکرائن پر حملہ کر سکتا ہے۔ تاہم روس نے بھی اسی دوران اپنی الگ بحری مشقوں کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے 21 جنوری جمعے کے روز کہا کہ امریکا اور نیٹو کے شراکت دار بحیرہ روم میں جو 12 روزہ بحری مشقیں کرنے والے ہیں، اس کا آغاز آئندہ پیر سے ہو گا۔ جان کربی کے مطابق، ’’نیپچون اسٹرائیک 22‘‘ نامی یہ بحری مشقیں چار فروری تک جاری رہیں گی، جن کا مقصد نیٹو کی بحری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ تجربات کرنا بھی ہے۔
امریکا نے نیٹو کی بحری مشقوں کے انعقاد کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں یو ایس ایس ہیری ٹرومین طیارہ بردار بحری جہاز بھی شامل ہو گا۔ اس اعلان سے ایک دن پہلے ہی روس نے کہا تھا کہ وہ جنوری اور فروری کے دوران بحرالکاہل سے بحر اوقیانوس تک سمندر میں اپنی بحری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گا۔
طیارہ بردار امریکی جہاز ’’یو ایس ایس ہیری ٹرومین‘‘ اور اس کیریئر گروپ کے دیگر جہاز دسمبر کے وسط سے ہی بحیرہ روم میں تب سے موجود ہیں، جب امریکا نے اس اپنے جہاز کو مشرق وسطیٰ کی طرف جانے کے بجائے بحیرہ روم میں ہی کھڑا کرنے کا حکم دیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ کشیدگی کے ماحول میں یورپی اتحادیوں کو، ’’یقین دہانی‘‘ کے لیے یہ فیصلہ کیا گيا ہے۔
بحری مشقوں کا یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ بات چیت کے چند گھنٹے بعد ہی آیا ہے۔ جینیوا میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے یوکرائن پر ماسکو کے حملے کے خدشے اور اس سے متعلق پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
مشقوں کا روس اور یوکرائن کی کشیدگی سے براہ راست تعلق نہیں
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے جمعے کے روز یہ وضاحت کی کہ ماسکو کے ساتھ کشیدگی کے بارے میں ہونے والی بات چیت نے بحری مشقوں کے انعقاد میں ایک کردار تو ادا کیا ہے، تاہم نیٹو کی یہ مشق، ’’بذات خود اس قسم کے منظر ناموں کے خلاف ڈیزائن نہیں کی گئی ہے جو یوکرائن کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔‘‘
اشتہار
کربی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نیپچون اسٹرائیک 22 واقعی نیٹو کی ایسی بحری مشق ہے جس میں بحری صلاحیتوں کا وسیع تر پیمانے پر تجربہ کیا جائے گا۔ اس سے ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی صلاحیتوں میں مزید بہتری لا سکتے ہیں۔"
لیکن نیٹو کی ویب سائٹ نے 14 دسمبر کو اس برس کے لیے جو پہلے سے طے شدہ مشقوں کی فہرست جاری کی تھی اس میں اس مشق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس پر جان کربی نے کہا، ’’اس وقت تناؤ کے مدنظر اپنی اس مشق کی پوزیشن کے بارے میں کافی غور کیا گیا۔ اس تمام تر غور و خوض اور ہمارے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد ہی، اس پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘‘
اس امریکی اعلان سے پہلے روس نے جنوری اور فروری کے مہینوں میں ہی بحر اوقیانوس، دائرہ قطب شمالی، بحرالکاہل اور بحیرہ روم میں اپنی بحری مشقوں کا اعلان کیا تھا، جس میں 140 جنگی جہاز اور دس ہزار فوجی شامل ہوں گے۔
ص ز/ ع ت (اے ایف پی، اے پی)
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔