یوکرائن: سلامتی کونسل میں امریکا اور روس کے درمیان تکرار
1 فروری 2022اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب 31 جنوری پیر کے روز یوکرائن کی سرحد پر ماسکو کی فوجیوں کی تعیناتی اور اس حوالے سے پیدا ہونے والی کشیدگی پر اجلاس شروع ہوا تو روس اور امریکا نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔
واشنگٹن نے کہا کہ روسی فوج کی تعیناتی ''بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ'' ہے، جب کہ کریملن کے ترجمان نے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کو ''پی آر اسٹنٹ'' یعنی عوامی سطح پر تعلقات و روابط کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس پر ''ہسٹیریا'' پیدا کرنے کا الزام عائد کیا۔
امریکا نے اس کے جواب میں کہا کہ روس آنے والے ہفتوں میں بیلاروس میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا کر 30,000 کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ وہ یوکرائن کی سرحد کے قریب منتقل ہونے والے اپنے ایک لاکھ فوجیوں میں مزید اضافہ کر سکے۔ تاہم بیلاروس کے نمائندے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اسے یوکرائن پر روسی حملے کے لیے اسٹیجنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
روس اس معاملے پر کھلے اجلاس کے مطالبے کی مخالفت کر رہا تھا، اس کے باوجود امریکا سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 10 کو عوامی اجلاس کی حمایت کرنے پر راضی کر سکا۔ لیکن سلامتی کونسل کی طرف سے اس معاملے میں کسی بھی رسمی کارروائی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں روس کو ویٹو پاور حاصل ہے وہیں چین سمیت سلامتی کونسل کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جنہوں نے اس مسئلے پر کھلی میٹنگ کو روکنے کی ماسکو کی کوششوں کی حمایت بھی کی ہے۔
اقوام متحدہ میں بیجنگ کے ایلچی ژانگ جون نے کہا، ''واقعی یہی مناسب وقت ہے کہ خاموش سفارت کاری کا مطالبہ کیا جائے۔''
اجلاس میں کیا باتیں ہوئیں؟
سلامتی کونسل کے دو گھنٹے سے زائد وقت کے اجلاس میں، امریکا اور روس کے درمیان گرما گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ ماسکو کی نمائندہ ویسیلی نیبنزیا نے الزام لگایا کہ امریکا کیف میں ''خالصتاً نازیوں '' کو اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس پر امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے جواباً کہا کہ یوکرائن کی سرحدوں پر روس کی جانب سے ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت یورپ میں گزشتہ کئی دہائیوں میں، ''سب سے بڑی فوجی نقل و حرکت ہے۔'' انہوں نے مزید کہا کہ روس کی جانب سے سائبر حملوں اور غلط معلومات پھیلانے میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا، ''وہ بغیر کسی حقیقت کے ہی یوکرائن اور مغربی ممالک کو حملہ آور کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حملے کا بہانہ بنایا جا سکے۔''
اس کے جواب میں روسی سفیر نے مغرب پر منافقت کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ''ہمارے مغربی ساتھی کشیدگی میں کمی کی ضرورت کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، سب سے پہلے، وہ خود ہی کشیدگی اور بیان بازی کو ہوا دے رہے ہیں اور اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں۔''
جواب میں امریکی سفیر نے کہا کہ ''یوکرائن کی سرحد پر جارحیت کی دھمکیاں۔۔۔۔ اشتعال انگیز ہیں۔ زمینی حقائق سے متعلق ہماری سمجھ اور پہچان اشتعال انگیز نہیں ہے۔''
سفارت کاری تعطل کا شکار
اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر جاری مذاکرات کے باوجود روس اور امریکا اب تک اس کشیدگی کو کم کرنے کے طریقے کے حوالے سے کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ گرچہ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس کا یوکرائن پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، تاہم اس نے یہ بھی مطالبہ کر رکھا ہے کہ نیٹو پہلے یہ وعدہ کرے کہ وہ کبھی بھی اپنے اتحاد میں کیف کی رکنیت کی اجازت نہیں دے گا۔
روس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نیٹو اتحاد مشرقی یورپ سے اپنی افواج کو واپس بلائے اور روس کی سرحدوں کے قریب ہتھیاروں کی تعیناتی اور فوجی سرگرمیوں کو ختم کرے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس اور نیٹو دونوں نے ہی روس کے مطالبات کو ناممکن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ امریکا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ماسکو نے سرحد پر اپنی فوجی کارروائی جاری رکھی تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
آج ہی یعنی منگل کو، امریکا نے برطانیہ کے ساتھ ایک مربوط اقدام کے تحت روسی اشرافیہ پر پابندی لگانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے درمیان جنوری کے اوائل میں اس معاملے پر بات چیت ہوئی تھی، تاہم ان سفارتی کوششوں کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ صدر جو بائیڈن اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان بھی ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تھی تاہم اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان منگل کو دوبارہ بات ہونی ہے۔ ادھر اسی دن برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بات کرنے کے لیے کیف جانے والے ہیں تاکہ کشیدگی کو کسی طرح کم کیا جا سکے۔
یوکرائن کے صدر زیلنسکی نے مغربی ممالک پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ کی بات کر کے ''خوف و ہراس'' پیدا کر رہے ہیں جس سے ان کے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)