1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھارت کو مہنگائی کا ایک اور جھٹکا لگنے والا ہے‘

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
4 مارچ 2022

سن 2014 کے بعد سے تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ بھارت کے لیے پریشان کن رہا ہے۔ یوکرین جنگ کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے اور بھارت کو مہنگائی کا ایک اور جھٹکا لگنے والا ہے۔

Indien Tankstelle
تصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

بھارت امریکہ اور چین کے بعد تیل صرف کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور وہ اپنی ضرورت کا پچاسی فیصد تیل دنیا کے چالیس ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین میں جنگ سے ترسیل میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا  امکان ہے۔

بھارت میں حالیہ مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور منڈی پر  نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ گرچہ حکومت نے اس میں قدر کمی کا اعلان کیا تھا تاہم اب صورت حال ایسی ہو گئی ہے کہ کسی بھی وقت اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

 بھارت کی بیشتر سپلائی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہوتی ہے جبکہ ملک اپنی مجموعی سپلائی کا صرف دو فیصد ہی روس سے درآمد کرتا ہے۔ بھارت بعض ممالک کو تیل برآمد بھی کرتا ہے جو اس کی برآمدات کا تقریبا 13 فیصد ہے۔

مہنگائی کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

ماہر اقتصادیات پروفیسر ارون کمار کہتے کہ مہنگائی کا انحصار اب صرف اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کیا اقدامات کرتی ہے۔ "چونکہ عالمی بازار میں قیمتیں بڑھ چکی ہیں اس لیے اگر حکومت نے اپنے ٹیکسوں میں کمی نہیں کی تو قیمتیں تو بڑھنی ہی بڑھنی ہیں۔ اس سے افراط زر کی شرحوں میں بھی اضافہ ہو گا اور اس کا سب سے زیادہ اثر روز مرہ کی اشیا پر پڑے گا۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں پروفیسر ارون کمار نے کہا کہ خبریں تو یہ ہیں کہ "حکومت انتخابات کے خاتمے کا انتظار کر ہی ہے اور جیسے ہی پولنگ ختم ہو گی تو وہ اپنی نئی پالیسی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اب یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت اپنے ٹیکسوں کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔"

تصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر تیل کی قیمتوں پر قابو نہ پا یا گيا تو ملک کی معاشی ترقی کی رفتار کو کافی نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق مہنگائی سے، "معیشت کی نمو سست رو ہو گی۔" ان کا کہنا تھا کہ جب معاشی ترقی میں کمی آتی ہے، تو حکومت کا مالی حساب و کتاب بھی پوری طرح سے اُلجھ جاتا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ حکومت، " اپنے ٹیکس میں کمی کر دے۔" 

بھارتی معیشت پہلے سے ہی ایک طویل سست روی کا شکار تھی اور پھر کورونا کی وبا کی وجہ سے ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کو کافی نقصان پہنچا جو ابھرنے کے لیے اب بھی جدوجہد کر رہی ہے۔

غیر یقینی صورت حال

بھارت میں اس وقت بے روزگاری عروج پر ہے اور ارون کمار کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں کے جھٹکے سے پیدا ہونے والی مزید سست روی سے حکومتی فلاح و بہبود کی اسکیموں پر برا اثر پڑے گا۔ ان کے بقول مہنگائی بڑھنے سے معاشی ترقی کی رفتار اتنی زیادہ کم ہو سکتی ہے کہ حکومت کو اپنے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں  پر خرچ کرنے کے لیے رقم بھی کم پڑے گی۔

یوکرین میں جنگ کب تک جاری رہے گی اور اس کی وجہ سے قیمتیں کتنی بلند ہوں گی یہ کسی کو ابھی نہیں معلوم ہے۔ ماہرین کے مطابق فی الوقت عالمی سطح پر "انتہائی غیر یقینی صورتحال ہے۔" یہ بالکل دھند میں گاڑی چلانے کے مترادف ہے اور کسی کو واقعی نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا۔     

ملک میں تیل کی مانگ میں ہر برس تین سے چار فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ ایک دہائی میں بھارت آسانی سے سات کروڑ بیرل تک روزانہ تیل استعمال کر سکتا ہے۔ تیل کا زیادہ تر حصہ یعنی تقریباً تیس کروڑ گاڑیوں کو سڑک پر رکھنے اور پیٹرو کیمیکل اور پلاسٹک جیسی مختلف صنعتوں کے لیے خرج ہو تا ہے۔

بھارت کی ٹیکس آمدن بھی تیل پر بہت زیادہ منحصر ہے۔ وفاقی ایکسائز ڈیوٹی میں تیل کا حصہ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ریاستیں بھی اپنی آمدن بڑھانے کے لیے تیل کے محصول پر انحصار کرتی ہیں۔

پاکستان:قیمتیں آسمان پر غریب کے لیے قیامت صغریٰ

02:47

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں