یوکرین میں بھارتی طلبہ کو یرغمال بنانے کا روسی دعویٰ غلط
3 مارچ 2022یوکرین پر روسی فوجی حملے کی وجہ سے اب بھی ہزاروں بھارتی طلبہ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں واپس لانے کے لیے مودی حکومت نے "آپریشن گنگا" شروع کیا ہے لیکن اس کی سست رفتاری اور طریقہ کار پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ان طلبہ کے والدین اپنے بچوں کی بہ عافیت واپسی کے لیے حسرت بھری نگاہوں سے راہ دیکھ رہے ہیں۔
ان سب کے درمیان بدھ کے روز روس نے جب یہ اطلاع دی کہ خارکیف میں یوکرینی سکیورٹی فورسز بھارتی طلبہ کو یرغمال بناکر 'انسانی ڈھال‘ کے طورپر استعمال کر رہی ہے اور انہیں روسی علاقے میں جانے سے روک رہی ہے، تو بھارت میں بہت سے لوگوں کی سانسیں تھم گئیں۔
بھارتی حکومت نے آج جمعرات کو روس کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بھارتی طالب علم کو یوکرین میں یرغمال نہیں بنایا گیا ہے۔ یوکرین میں بھارتی حکام اپنے تمام شہریوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یرغمال بنائے جانے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ یوکرین نے بھی کسی بھارتی طالب علم کو یرغمال بنانے کی تردید کی ہے۔
یوکرینی حکام مدد کررہے ہیں، بھارت
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہمیں کسی طالب علم کو یرغمال بنانے کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ ہم نے یوکرینی حکام سے بھارتی طلبہ کو خارکیف اور ملک کے مغربی حصے سے نکالنے کے لیے خصوصی ٹرینوں کا نظم کرنے کی درخواست کی ہے۔‘‘
باگچی کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران بڑی تعداد میں بھارتی طلبہ کو نکال لیا گیا ہے اور یوکرینی حکام ہماری مدد کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ روس کی جانب سے بھارتی طلبہ کو یوکرین میں یرغمال بنانے کی خبریں ایسے وقت سامنے آئیں جب چند گھنٹے قبل ہی بھارت میں روسی سفیر نے کہا تھا کہ روس پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کو روسی یوکرینی سرحد کے راستے نکالنے کے خاطر ایک محفوظ راہداری کی تیاری پر کام کر رہا ہے۔
یہ فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد کیا گیا تھا۔ حالانکہ دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد بھارت کی طرف سے جاری بیان میں راہداری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بیان میں کہا گیا تھا،''دونوں رہنماوں نے یوکرین کی صورت حال کا جائزہ لیا، بالخصوص خارکیف شہر کا جہاں بہت سے بھارتی طلبہ پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے تصادم کے علاقوں سے بھارتی شہریوں کے محفوظ انخلاء پر بھی بات چیت کی۔‘‘
گزشتہ جمعرات کو یوکرین پر روسی حملے شروع ہونے سے قبل وہاں تقریباً بیس ہزار بھارتی طلبہ موجود تھے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران ''آپریشن گنگا‘‘ کے تحت تقریباً بارہ ہزار بھارتیوں کو یوکرین سے نکالا جاچکا ہے۔ تاہم اب بھی آٹھ ہزار سے زائد طلبہ پھنسے ہوئے ہیں۔ اس دوران خارکیف میں روسی فوج کی شیلنگ میں ایک بھارتی طالب علم ہلاک بھی ہو گیا۔
اپوزیشن ناراض
مودی حکومت نے بھارتی طلبہ کی محفوظ وطن واپسی کا کام مناسب اور سہل انداز میں انجام دینے کے لیے چار مرکزی وزیروں کو یوکرین سے ملحق مختلف ملکوں میں سفیر کے طور پر روانہ کیا ہے۔ تاہم اپوزیشن نے ان کے دورے کو ''پکنک‘‘ قرار دیا۔
اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے حکومت سے سوال کیا ہے ''اب تک کتنے طالب علم بھارت واپس لوٹے، کتنے اب بھی پھنسے ہوئے ہیں اور حکومت کا آئندہ کا منصوبہ کیا ہے؟‘‘
دراصل حکومت نے جن 12ہزار طلبہ کو واپس لانے کا دعویٰ کیا ہے اس کی تفصیلات عام نہیں کی ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر اب بھی ہر روز ایسی نئے ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جن میں یوکرین میں پھنسے ہوئے بھارتی طلبہ اپنی مصیبت اور پریشانیوں کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا کوئی سرکاری عہدیدار ان کی خیریت تک دریافت نہیں کر رہا۔
یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت جس طرح کا آپریشن چلا رہی ہے ایسے میں تمام بھارتی شہریوں کو نکالنے میں ابھی کم از کم دس دن مزید لگ سکتے ہیں۔ چونکہ کییف میں بھارتی سفارت خانہ بند ہوچکا ہے اس لیے یوکرین کے اندر بھارت کچھ زیادہ کر بھی نہیں کرسکتا۔