1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین جنگ: نیپال جیسا چھوٹا ملک روس کا مخالف کیوں؟

24 مارچ 2022

نیپال ان چند ایشیائی ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ یہ کٹھمنڈو کی ناوابستہ خارجہ پالیسی سے واضح انحراف ہے اور اس ہمالیائی ملک کے لیے اس کے ممکنہ طور پر سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔

11. Sondersitzung der UN-Generalversammlung zum Einmarsch Russlands in die Ukraine
تصویر: Timothy A. Clary/AFP

یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشائی ممالک غیر حاضر رہے لیکن حیرت انگیز طور پر نیپال نے اس قرارداد کی حمایت کی جس میں ماسکو سے اپنی فوج واپس بلالینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ نیپال جیسے ملک کے لیے ایک غیر معمولی واقعہ ہے، جو عالمی تصادم کے واقعات میں بالعموم "غیر جانبدار" موقف اختیار کرتا رہاہے۔ اس چھوٹی ہمالیائی ریاست کے روس اور مغرب دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

یوکرین کے لیے کٹھمنڈو کی حمایت نے نیپال میں ملکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بھوٹان اور مالدیپ نے بھی اقوام متحدہ کے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے تھے جس کی مغرب نے تحسین کی۔

نیپال کی پالیسی میں تبدیلی کے اسباب

ماہرین کا خیال ہے کہ نیپال کا "روس مخالف موقف" امریکہ کی جانب اس کے حالیہ جھکاو کا نتیجہ ہے۔ نیپال کی پارلیمان نے حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ملینیم چیلنج کارپوریشن (ایم ایم سی) کو دیے جانے والے 500ملین ڈالر کے امداد کی توثیق کی ہے۔ نیپال کی چین نواز جماعتوں نے اس کی مخالفت کی اور ملک بھر میں امریکہ مخالف مظاہرے کیے۔

نیوز پورٹل دیش سنجار ڈاٹ کوم کے ایڈیٹر ان چیف یوبراج گھیمیرے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیپال بلاشبہ مغرب کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔

 یوکرین کی جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا سے فون پر بات کی اور ایم ایم سی کی توثیق کرنے اور اقوام متحدہ میں قرارداد کی حمایت کرنے کے ان کی حکومت کے فیصلے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیپال دراصل اپنے طاقت ور پڑوسیوں بھارت اور چین پر اپنا انحصار کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کٹھمنڈو میں واقع سینٹرفار ساوتھ ایشیئن اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نشچل ناتھ پانڈے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "نیپال دو بڑی طاقتو ں کے درمیان گھرا ہوا ملک ہے اور ایسے میں خود کو پریشان محسوس کرنا فطری ہے۔"

نیپال واشنگٹن کی مدد کو چین اور بھارت کو اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ بیجنگ اور نئی دہلی دونوں ہی اس ہمالیائی ملک پر اپنے زیادہ سے زیادہ اثرات ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی جانب سے ملینیم چیلنج کارپوریشن کو دیے جانے والے 500 ملین ڈالر کےامریکی امداد کے خلاف چین نواز جماعتوں نےمظاہرے کیے تھےتصویر: PRAKASH MATHEMA/AFP

چھوٹے ملک خوف محسوس کرتے ہیں

یوکرین پر روسی حملے نے بہت سے ناوابستہ ملکوں کو تشویس میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی بڑا ملک اپنے چھوٹے پڑوسی کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ نیپال کو بھی چین اور بھارت سے اسی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ جیسے عالمی واقعات میں نیپال جیسے ملکوں کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل ہوگا۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر اندرا ادھیکاری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"نیپال کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کو ایک وابستہ یا ناوابستہ مسئلے کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ نیپال نے انصاف کی حمایت کی ہے، عالمی امن، اقوام متحدہ کے چارٹرز اور بین الاقوامی قوانین کی حمایت کی ہے۔"

تاہم ایسے بحران میں کٹھمنڈو کا موقف ہمیشہ یکساں نہیں رہا ہے۔ مثال کے طورپر اس نے سن 2014میں کریمیا کے روس میں انضمام کی نکتہ چینی نہیں کی تھی اور جب اس قبضے کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹنگ ہوئی تو وہ اس سے غیر حاضر رہا۔ ادھیکاری تاہم کہتے ہیں کہ اس کی وجہ نیپال میں چین کی حمایت والی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔

گھیمیرے متنبہ کرتے ہیں کہ اگر یوکرین میں جاری جنگ میں روس مغرب پر کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو اس سے نیپال کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ ماسکو جنوبی ایشیائی ملکوں میں ایک بڑا کھلاڑی بن جائے گا۔

یوکرین بحران کا نتیجہ خواہ جو بھی برآمد ہو نیپال جیسے ملکوں کے لیے یہ خطرہ تو بہر حال بڑھ ہی گیا ہے کہ انہیں اب علاقائی اورعالمی طاقتو ں پر پہلے سے کہیں زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔

(لوک ناتھ پانڈے، کٹھمنڈو)  ج ا/ ص ز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں