1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین جنگ نے پاکستانی اور بھارتی شہریوں کو مزید قریب کر دیا

جاوید اختر، نئی دہلی
9 مارچ 2022

پاکستان اور بھارت یوں تو ایک دوسرے کے دیرینہ حریف ہیں اور حالیہ عرصے میں دونوں میں کشیدگی میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ لیکن یوکرین کی جنگ کے دوران دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کی مدد کی قابل تقلید مثالیں پیش کر رہے ہیں۔

Ukraine-Krieg | Flüchtlinge aus Afrika und Asien
تصویر: WOJTEK RADWANSKI/AFP/Getty Images

بھارتی حکام جنگ زدہ یوکرین سے اپنے شہریوں کے انخلاء کے ساتھ ہی دیگر ملکوں کے شہریوں کی بھی انخلاء میں مدد کر رہے ہیں۔ اس دوران سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی طالبہ اسماء شفیق کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ انخلاء میں مدد کے لیے یوکرین میں بھارتی سفارت خانے اور وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔

اسماء شفیق نے کیا کہا؟

بھارتی ذرائع کے مطابق اسماء شفیق مغربی یوکرین کے راستے سے اپنے وطن پاکستان کے لیے روانہ ہو چکی ہیں اور وہ جلد ہی اپنے گھروالوں کے پاس پہنچ جائیں گی۔

اسماء کا جو ویڈیو وائرل ہhو رہا ہے اس میں وہ یہ کہتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہیں،"ہیلو، میرا نام اسماء شفیق ہے۔ میں پاکستان کی رہنے والی ہوں۔ میں یہاں تک پہنچنے کے لیے کییف میں بھارتی سفارت خانے کی بہت شکر گزار ہوں۔ ہم بہت مشکل حالات میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے ہماری کافی مدد کی۔ میں اس کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ہماری مدد کرنے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں امید کرتی ہوں کہ بھارتی سفارت خانے کی وجہ سے بخیر و خوبی اپنے گھر پہنچ جاوں گی۔"

پاکستان کے معظم خان بھارتی طلبہ کے لیے مسیحا

یوکرین میں مقیم پاکستان کے معظم خان کی بھی کافی تعریف ہورہی ہے۔ اسلام آباد کے قریب تربیلا کینٹ کے رہائشی معظم اب تک 2500 سے زائد بھارتی طلبہ کو یوکرین کے جنگ زدہ علاقوں سے انخلاء میں مدد کر چکے ہیں۔ معظم نے یوکرین میں سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ گزشتہ گیارہ برسوں سے وہاں بس ٹور آپریٹر کا کام کررہے ہیں۔

ایسے وقت میں جب کہ بیشتر یوکرینی بس ڈرائیور بھارتی طلبہ سے فی کس 250 ڈالر کرایہ وصول کر رہے ہیں معظم نہ صرف ان سے 20 تا 25 ڈالر لے رہے ہیں بلکہ ضرورت مند طلبہ سے کوئی پیسہ لیے بغیر ہی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

معظم کہتے ہیں،" میں ان سے 20 تا 25 ڈالر لیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ اگر کسی کے پاس پیسے کم ہیں تو میں ان سے کوئی پیسہ نہیں لیتا۔ میری سب سے بڑی کمائی ان بھارتی طلبہ کے والدین کی دعائیں ہیں، جو وہ مجھے فون پر یا واٹس ایپ پر شکریہ ادا کرتے ہوئے دیتے ہیں۔"

'یہی محبت ہے، یہی انسانیت ہے'

جب معظم خان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور بھارت کے درمیان "دشمنی کی قدیم روایت" کے مدنظر ایک پاکستانی کے طور پر بھارتیوں مدد کرتے ہوئے انہیں اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا تو انہوں نے کہا، "آ پ نے حال ہی میں وہ ویڈیو ضرور دیکھا ہو گا جس میں بھارتی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ایک پاکستانی کھلاڑی کی ننھی سی بیٹی کے ساتھ کس قدر لاڈ پیار کررہی ہیں۔ یہ محبت ہے اور یہی انسانیت ہے۔ دشمنی صرف سیاست بازی ہے، دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔"

 معظم خان کا کہنا تھا،" ایک انسان کے طورپر ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہتے ہیں جس سے محبت اور شفقت کا احساس مل سکے۔ میں یوکرین چھوڑنے والے اپنے تمام بھارتی شہریوں کو گلے لگا کر رخصت کرتا ہوں۔ ایسے حالات میں ایک دوسرے کو گلے لگانا سکون دیتا ہے۔"

یوکرین سے بھارتی طلبہ کے انخلاء میں مدد کرنے والی ایک بھارتی غیر سرکاری تنظیم نے بھی معظم خان کی خدمات کی تعریف کی ہے۔

 بھارتی میڈیا میں ایک پاکستانی شہری حسین کی بھی تعریف کی جارہی ہے جنہوں نے صرف اس لیے جنگ زدہ خرسون سے انخلاء سے انکار کردیا کیونکہ ان کے پانچ بھارتی ساتھیوں کے انخلاء میں دشواری پیش آرہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں