یوکرین جنگ: ٹرمپ کے ایلچیوں کی پوٹن سے آج ماسکو میں ملاقات
2 دسمبر 2025
روسی صدر ولادیمیر پوٹن منگل کے روز ماسکو میں امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد، جیرڈ کُشنر، جو سفارتی مذاکرات میں ایک بیرونی مشیر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، بھی اس ملاقات میں موجود ہوں گے۔
یہ میٹنگ فلوریڈا میں یوکرینی اور امریکی حکام کے درمیان دو روزہ مذاکرات کے بعد ہو رہی ہے، جن میں وٹکوف اور کُشنر بھی شامل تھے۔ ان مذاکرات کا مقصد امریکہ کی حمایت یافتہ امن منصوبے کو مزید بہتر بنانا تھا، جسے روس کے حق میں سمجھا جا رہا تھا۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ان مذاکرات کو ''تعمیری‘‘ قرار دیا، لیکن کہا کہ ''کچھ مشکل امور ابھی باقی ہیں جن پر کام کرنا ضروری ہے۔‘‘
پیر کو پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کے بعد زیلنسکی نے کہا کہ امن مذاکرات میں کییف کی ترجیحات یوکرین کی خودمختاری کو برقرار رکھنا اور مضبوط سکیورٹی ضمانتیں حاصل کرنا ہیں۔
زیلنسکی نے کہا کہ ''علاقائی مسئلہ سب سے بڑا‘‘ ہے، کیونکہ کریملن مشرقی یوکرین کے ان علاقوں کو چھوڑنے پر زور دیتا رہتا ہے جو اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہیں اور کییف طویل عرصے سے اس بات پر قائم ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔
وٹکوف نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر، زیلنسکی اور یوکرین کے نئے چیف مذاکرات کار روسٹم آمیروف سے بھی بات چیت کی، جبکہ کئی اہم یورپی رہنماؤں نے زیلنسکی اور ماکروں کی ملاقات میں ورچوئل شرکت کی۔
وائٹ ہاؤس پرامید
پیر کو گفتگو کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا کہ مسودۂ امن سمجھوتے کو ''بہت بہتر بنایا گیا ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''مجھے لگتا ہے کہ انتظامیہ بہت زیادہ پُرامید ہے۔
تفصیلات کے بارے میں نہیں بتاؤں گی، مگر ہم اچھا محسوس کر رہے ہیں، اور امید کرتے ہیں کہ یہ جنگ بالآخر ختم ہو سکے گی۔‘‘
گزشتہ ہفتے پوٹن نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے امن منصوبے کا مسودہ دیکھا ہے اور یہ جنگ کے خاتمے کے لیے مستقبل کے معاہدے کی ''بنیاد‘‘ بن سکتا ہے۔
تاہم بعد میں کریملن کے حکام نے اس تجویز کو قبول کرنے پر شبہ ظاہر کیا، جب کییف اور یورپی اتحادیوں نے کہا کہ انہوں نے اس میں تبدیلیاں کروا لی ہیں۔
نومبر میں امریکہ اور روس کے درمیان گردش کرنے والے ابتدائی امن منصوبے نے کییف اور پورے یورپ میں تشویش پیدا کر دی تھی۔
امن منصوبہ ’ماسکو کے حق میں‘
نومبر میں پیش کردہ ابتدائی امن منصوبہ ماسکو کے مطالبات کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ رکھنے کے علاوہ، اس میں یہ بھی شامل تھا کہ یورپی مالیاتی اداروں میں منجمد روسی اثاثوں کے اربوں ڈالر کس طرح استعمال کیے جائیں، اور ساتھ ہی یورپ میں یوکرینی منڈی تک رسائی کی شرائط بھی طے کی گئی تھیں۔
پیر کے روز بات کرتے ہوئے صدر ماکروں نے کہا کہ فی الحال ''کوئی حتمی امن منصوبہ موجود نہیں‘‘ اور اصرار کیا کہ ایسی کوئی بھی تجویز صرف یوکرین اور یورپ کی شمولیت سے ہی تیار کی جا سکتی ہے۔
ماکروں نے کہا کہ علاقائی چھوٹ کا معاملہ ''صرف صدر زیلنسکی ہی طے کر سکتے ہیں‘‘۔ اور یہ نشاندہی بھی کی کہ منجمد روسی اثاثوں، سکیورٹی ضمانتوں اور یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق معاملات میں یورپی ممالک کو شامل ہونا ضروری ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ، کایا کالاس نے کہا کہ یہ ہفتہ ''فیصلہ کن‘‘ ہو سکتا ہے، لیکن ماسکو صرف ان لوگوں سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے ''جو انہیں اس سے بھی زیادہ کچھ دینے کی پیشکش کر رہے ہوں جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا،''مجھے خدشہ ہے کہ تمام دباؤ کمزور فریق پر ڈالا جائے گا کیونکہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے سے اس جنگ کو روکنا آسان ہو گا، لیکن یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘
ماسکو کا دعویٰ
منگل کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب روسی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مشرقی یوکرین کے دو اہم اسٹریٹیجک قصبوں پُوکرووسک، جسے روسی میں کرسنوآرمیئسک کہا جاتا ہے، اور ووشانسک پر قبضہ کر لیا ہے۔
یوکرینی حکام نے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں کی کہ یہ دونوں شہر روس کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔
اوپن سورس انٹیلیجنس پروجیکٹس، جو جنگ کی فرنٹ لائنز کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں، کے مطابق نہ تو ووشانسک اور نہ ہی پُوکرووسک ابھی تک مکمل طور پر روسی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ