یوکرین جنگ کے خاتمے کے ليے امریکہ، روس مذاکرات بے نتيجہ
3 دسمبر 2025
کریملن کے ترجمان نے بتايا کہ ماسکو میں ہونے والی میٹنگ تعمیری تھی مگر ترميم شدہ مسودے کے کچھ حصے روس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے البتہ کہا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت میں ''کچھ پیش رفت‘‘ ہوئی ہے۔
ماسکو میں منگل کو روسی صدر پوٹن کی ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیوو وٹکوف اور داماد جیراڈ کُشنر کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ مذاکرات کا یہ دور جنگ کے خاتمے کے لیے ہفتوں پر محیط سفارتی کوششوں کا حصہ تھا۔
امریکی ٹیم نے ماسکو چھوڑنے کے بعد کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن امریکی وزیرِ خارجہ روبیو نے فاکس نیوز کو بتایا، ''ہم نے کوشش کی اور مجھے لگتا ہے کہ اس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ یوکرین کے لیے کیا قابل قبول ہو سکتا ہے، جو انہیں مستقبل کے لیے سکیورٹی کی ضمانتیں دے۔‘‘
منزل ابھی دور!
مذاکرات سے قبل بات کرتے ہوئے پوٹن نے یورپی رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی رہنما اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ روس کو اسٹریٹجک شکست دے سکتے ہیں۔ ان کے مطابق 'روس یورپ سے جنگ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اگر یورپ اچانک جنگ چاہتا ہے اور شروع کرتا ہے، تو ہم بھی تیار ہیں۔‘
کریملن کے اعلیٰ مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا،''ابھی تک ہم کسی سمجھوتے تک نہيں پہنچ سکے، لیکن کچھ امریکی تجاویز پر بات کی جا سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتايا کہ کچھ نکات ایسے بھی تھے جن پر اتفاق ہوا تاہم صدر نے متعدد تجاویز پر تنقیدی بلکہ منفی مؤقف کو نہیں چھپایا۔
اوشاکوف نے تاہم مذاکرات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ گفتگو فائدہ مند اور تعمیری رہی لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
اہم اختلافات
یوکرین اور اس کے اتحادی امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے تیار کردہ امن منصوبے میں ترمیم کرے، جسے وائٹ ہاؤس تیزی سے منظوری دلانے کی کوشش کر رہا ہے اور جسے کریملن نے اس سے قبل قبول کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
منصوبہ کا مسودہ نومبر میں میڈیا میں لیک ہو گیا تھا۔ اس منصوبے کو روس کے حق میں تصور کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ماسکو اور کییف کے درمیان اہم اختلافات اب بھی برقرار ہیں، جن میں یوکرین سے وہ علاقے چھوڑنے کا تقاضہ بھی شامل ہے جن پر ابھی تک اس کا کنٹرول ہے، اور یورپ کی جانب سے دی جانے والی سکیورٹی ضمانتیں بھی زیر بحث ہیں۔
ماسکو اور یوکرین کے یورپی اتحادی اس بات پر بھی شدید اختلاف رکھتے ہیں کہ امن معاہدے کی شکل کیا ہونی چاہیے۔
زیلينسکی نے کیا کہا؟
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلينسکی نے کہا کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ ملاقات کے بعد امریکی مذاکراتی ٹیم انہیں کریملن میں ہونے والی بات چیت پر بریف کرے گی، اگرچہ یہ واضح نہیں کہ اسٹیو وِٹکوف اور جیرڈ کُشنر مزید براہِ راست مذاکرات کے لیے کییف یا کسی اور یورپی دارالحکومت جائیں گے۔
یوکرینی صدر نے منگل کے روز کہا کہ جنگ ختم کرنے کا موقع ''اب پہلے سے زیادہ‘‘ موجود ہے، لیکن تجویز کے کچھ پہلوؤں پر ابھی مزید کام باقی ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ ''کوئی آسان حل نہیں ہے‘‘، اور ایک بار پھر زور دیا کہ امن مذاکرات میں کییف کو شامل کیا جائے اور واضح سکیورٹی ضمانتیں طے کی جائیں، جن میں نیٹو رکنیت بھی شامل ہے۔
خیال رہے کی روس طویل عرصے سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرتا آ رہا ہے اور ٹرمپ بھی اسے مسترد کر چکے ہیں۔
زیلنسکی نے مزید کہا،''ہمیں جنگ اس طرح ختم کرنی ہے کہ ایک سال بعد روس دوبارہ نہ لوٹ آئے۔‘‘
جنگ اور جنگ بندی کی کوشش دونوں جاری
منگل کے روز جب مذاکرات جاری تھے، اس دوران واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے اپنے کابینہ اجلاس میں اعتراف کیا کہ یہ تنازعہ حل کرنا آسان نہیں رہا، اور اس جنگ کو''ایک گڑبڑ‘‘قرار دیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں بدھ کے روز بیجنگ پہنچنے والے ہیں، جہاں توقع ہے کہ وہ اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ پر یوکرین میں جنگ بندی کے لیے تعاون کا دباؤ ڈالیں گے۔ زیلنسکی نے پیر کے روز فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کی تھی۔
دریں اثنا، منگل کے روز کئی محاذوں پر لڑائی جاری رہی۔ یوکرین کی فوج نے کہا کہ وہ اب بھی مشرقی اہم شہر پوکرووسک میں روسی فوجیوں کا مقابلہ کر رہی ہے، جو ماسکو کے اس دعوے کی تردید ہے کہ اس نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔
ادارت: عاصم سلیم