یوکرین میں برطانوی ٹینک بھی جل جائیں گے، کریملن ترجمان
16 جنوری 2023
کریملن کے ترجمان پیسکوف نے کہا ہے کہ یوکرین بھیجے جانے والے برطانوی ٹینک بھی دیگر مغربی ہتھیاروں کی طرح جل ہی جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کو مزید دیے جانے والے جدید مغربی ہتھیاروں سے بھی جنگ کا پانسہ نہیں پلٹے گا۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ برس چوبیس فروری کے روز ملکی فوج کو یوکرین میں مسلح مداخلت کا جو حکم دیا تھا، اس کے بعد سے جاری روسی یوکرینی جنگ آج تک جاری ہے۔ اس جنگ میں کییف حکومت کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اب تک یوکرین کو بیسیوں ارب ڈالر مالیت کے جنگی ہتھیار فراہم کر چکے ہیں۔ ان ہتھیاروں اور عسکری ساز و سامان میں کئی طرح کے راکٹ سسٹمز، ڈرونز، بکتربند گاڑیوں اور مواصلاتی نظاموں سمیت بہت کچھ شامل تھا۔
چیلنجر ٹینک بھیجنے کا برطانوی فیصلہ
یوکرین کے لیے مغربی ممالک کی طرف سے جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے اسی سلسلے کے تحت ہفتہ 14 جنوری کے روز لندن حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ برطانیہ آئندہ ہفتوں کے دوران یوکرین کو اپنے چیلنجر دو طرز کے 14 ٹینک اور توپ خانے سے متعلق دیگر عسکری سامان بھی مہیا کرے گا۔
ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیر 16 جنوری کے روز جب کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف سے انہی برطانوی ٹینکوں کے بارے میں ایک سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، ''وہ (امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک) اس ملک (یوکرین) کو اپنے روس مخالف مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے ٹینک جل رہے ہیں اور جو مزید بھیجے جائیں گے، وہ بھی جل ہی جائیں گے۔‘‘
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
دمیتری پیسکوف نے مزید کہا کہ برطانیہ اور پولینڈ جیسے ممالک سے یوکرین کو جو بھی نئے ہتھیار بھیجے جا رہے ہیں، وہ بھی جنگ کا رخ تبدیل نہیں کر سکیں گے۔
جرمن چانسلر شولس پر دباؤ
روسی یوکرینی جنگ کے تناظر ہی میں وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس پر اس وقت کافی دباؤ ہے کہ وہ کییف کے لیے بین الاقوامی فوجی امداد میں اضافے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ یوکرین کو جرمن ساختہ لیوپارڈ ٹو نامی ٹینک بھی مہیا کیے جائیں۔
یہ ٹینک بناتا تو صرف جرمنی ہے لیکن وہ پہلے ہی کئی دیگر اتحادی ممالک کو بھی یہ ٹینک مہیا کر چکا ہے۔ اب برلن حکومت پر دباؤ یہ ہے کہ جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک دونوں ہی یوکرین کو یہ ٹینک مہیا کریں۔ برلن حکومت نے تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔