1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوکرین

یوکرین میں جنگی جرائم کی تحقیقات کیسے ہو رہی ہیں؟

28 فروری 2023

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے ستر ہزار سے زائد مبینہ جنگی جرائم رپورٹ ہوئے ہیں تاہم ان جرائم کے خلاف عدالتی مقدمہ چلانے کا عمل نہایت مشکل نظر آ رہا ہے۔

Ukraine Krieg | Prozess wegen Kriegsverbrechen des russischen Militärs
تصویر: Hanna Sokolova/DW

یوکرین اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ ان ہزاروں واقعات کے ثبوت موجود ہیں، جن میں قتل اور پھانسی، شہری بنیادی ڈھانچے پر گولہ باری، جبری ملک بدری، بچوں کا اغوا، تشدد، جنسی تشدد اور غیر قانونی حراست جیسے جرائم شامل ہیں۔

لیکن روس بارہا اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی فوج نے یوکرین میں شہریوں کو حملے کا نشانہ بنایا ہے یا انہیں کے خلاف  مظالم کا ارتکاب کیا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ  کامیاب جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ چلانے کے عمل کے لیے کے لیے اعلیٰ معیار کے ثبوت کی  ضرورت ہوتی ہے۔

ایسی صورت حال میں مقدمہ چلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، جہاں مشتبہ افراد اور جرائم کے مناظر تک رسائی عموماً محدود ہو۔ دوسرے یہ کہ ایسے علاقے میں مبینہ طور پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے خلاف قانونی چارہ جوئی بہت ہی پیچیدہ عمل بن جاتی ہے، جہاں قومی اور بین الاقوامی عدالتوں کے درمیان حلقہ عدلیہ کسی ایک نظام کے تحت نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ کُلی یا جُزوی طور پر مل کر کام کرتا ہے۔

یوکرین کے جنگی جرائم کے یونٹ کی نائب سربراہ جنسی تشدد کے لیے کی چھان بین کرتے ہوئےتصویر: Anna Voitenko/REUTERS

یوکرین میں جنگی جرائم کی تحقیقات کون کر رہا ہے؟

یوکرین کے  جنگی جرائم کے پراسیکیوٹر 'عدلیہ کی ایک موبائل ٹیم‘  کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ محکمہ انصاف کی ٹیمیں اور فرانسک ٹیمیں مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات بین الاقوامی قانونی ماہرین کے تعاون سے کر رہی ہیں۔ یہ تحقیقات 24 فروری 2022 ء سے بنیادی طور پر یوکرین کے جنوب اور مشرق حصے میں جاری ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کی زمین روسی افواج دوبارہ چھین لی گئی ہے۔

مقامی عدالتیں جرائم کے ''براہ راست ارتکاب‘‘ پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق روسی فوج کے نچلے درجے کے 26 افسران کو  ریپ، قتل، رہائشی انفراسٹرکچر پر گولہ باری، شہریوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور لوٹ مار کے جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

کُل 296 افراد پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ تاہم روسی رہنماؤں کو ان اقدامات کا جوابدہ ٹھہرانا، کیونکہ ان کے احکامات پر یہ جرائم کیے گئے، آسان عمل نہیں ہے اور اس میں سالوں لگ سکتے ہیں۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے لوگوں پر تشدد کرنے کے لیے اس دفتر کی عمارت کا استعمال کیا تھاتصویر: Anna Voitenko/REUTERS

یوکرین میں سرگرم عدلیہ کی ایک موبائل ٹیم کے سربراہ وین جورداش کے بقول،''روس کی سیاسی اور عسکری اعلیٰ قیادت کو ان جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا انتہائی پیچیدہ اور مشکل کام ہے جو ابھی ہونا باقی

ایران بھی یوکرین میں 'جنگی جرائم میں ملوث'، امریکہ

 ہے۔‘‘

شواہد اکٹھا کرنے کی کارروائی جاری

وین جورداش نے مزید بتایا،'' گزشتہ برس سے جاری تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ روس کا فوجی آپریشن فطری طور پر مجرمانہ ہے، کیونکہ اس سے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ یوکرینی شناخت کو بڑے پیمانے پر مٹا دیا جائے اور یہ ممکنہ نسل کشی،  جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔‘‘

بین الاقوامی فوجداری عدالت کیا کر سکتی ہے؟

جنگی جرائم کا مقدمہ یا تو یوکرین میں اس کی اپنی عدالتوں میں  چلایا جا سکتا ہے یا  بین الاقوامی عدالتوں میں، یا پھر مٹھی بھر قومی اتھارٹیز ''عالمی دائرہ اختیار‘‘ کے تحت یہ مقدمات چلا سکتی ہیں۔

بوچا میں بین الاقوامی فرانسک ٹیم کا ایک تفتیش کارتصویر: Carol Guzy/ZUMA/dpa/picture alliance

دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) بھی موجود ہے جو جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ وسیع تر جرائم کی تحقیقات کرتی ہے، جیسا کہ انسانیت اور نسل کشی وغیرہ۔ دی ہیگ کی اس  عدالت سے  توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہائی پروفائل روسی مجرموں پر توجہ مرکوز کرے گی۔

دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پراسیکیوٹر کریم خان کے اس عہدے پر فائض ہونے کے بعد اس ایک سال کے عرصے میں وہ تین بار یوکرین کا دورہ کر چُکے ہیں۔ انہوں نے کییف کے اس علاقے کا دورہ بھی کیا، جہاں مبینہ طور پر شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ وہ بوچا، اور خارکییف کے علاقوں میں بھی گئے جہاں بوروڈیانکا قصبے کے رہائشیوں کے محلوں کو گولہ باری سے تباہ کر دیا گیا۔

ک م/ ع ت ( روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں