یوکرین میں فوجی مداخلت خارج از امکان: جرمنی اور نیٹو کا موقف
17 مارچ 2022
جرمن چانسلر اولاف شولس نے واضح کر دیا ہے کہ نیٹو کی طرف سے یوکرینی تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ساتھ ہی نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کا ہدف اس مسلح تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن چانسلر شولس اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ اسٹولٹن برگ کی سترہ مارچ جمعرات کے روز برلن میں ہونے والی ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب یورپی یونین کی اگلی سربراہی کانفرنس بس ہونے ہی والی ہے۔ اس ملاقات سے کچھ دیر قبل جمعرات ہی کے روز یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف سے ویڈیو رابطے کے ذریعے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے ارکان سے خطاب بھی کیا تھا۔
چانسلر شولس کے دو ٹوک الفاظ
باہمی ملاقات کے بعد شولس اور اسٹولٹن برگ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس کی ابتدا میں جرمن سربراہ حکومت نے صدر زیلنسکی کے بنڈس ٹاگ سے خطاب اور ان کے 'متاثر کن الفاظ‘ پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن ساتھ ہی چانسلر شولس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ نیٹو اتحاد یوکرین میں کوئی فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔
جرمن سربراہ حکومت نے کہا، ''ایک بات بالکل واضح کر دی جانا چاہیے: مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اس جنگ میں فوجی سطح پر کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔‘‘
نیٹو کی ذمہ داری
جرمن چانسلر کے انہی الفاظ کا اعادہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے بھی اپنے بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو نے اگر یوکرین کے تنازعے میں کوئی فوجی مداخلت کی، تو اس تنازعے کے مزید پھیل جانے کا امکان اور زیادہ ہو جائے گا۔ نیٹو کے سربراہ نے کہا کہ اس جنگ میں اس عسکری اتحاد کا کردار تنازعے میں مزید شدت کا راستہ روکنا ہے۔
ژینس اسٹولٹن برگ نے جرمن چانسلر کی موجودگی میں کہا، ''نیٹو کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس تنازعے کو اور بھی شدید تر ہو جانے سے روکے۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ بحران خطرناک تر ہو جائے گا اور اس سے انسانی مصائب، ہلاکتیں اور تباہی سب کچھ کہیں زیادہ ہو جائے گا۔‘‘
یوکرین کی بار بار کی گئی درخواست
یوکرین پر روس کی طرف سے فوجی چڑھائی کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ اب اپنے چوتھے ہفتے میں ہے۔ اس عرصے کے دوران یوکرین کی طرف سے یورپ اور نیٹو سے بار بار مدد کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر اہم یہ درخواست بھی تھی کہ نیٹو یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے کر ان حدود کی حفاظت بھی کرے۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
اس سلسلے میں یوکرین میں نو فلائی زون کے قیام سے متعلق لیتھوانیا کی پارلیمان نے تو متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کر لی تھی۔ اسی مجوزہ ممنوعہ فضائی علاقے کے قیام کے کییف کے مطالبے کی ایسٹونیا اور سلووینیا جیسے ممالک نے بھی کھل کر حمایت کی تھی۔ تاہم اس بارے میں نیٹو اور یورپی یونین کے رکن اکثر ممالک کا موقف یہ تھا کہ یوکرین کی فضائی حدود میں ایسے کسی نو فلائی زون کا قیام اس جنگ میں فوجی سطح پر عملی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔
اشتہار
نیٹو کی طرف سے جرمنی کے کردارکی تعریف
نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے دائرہ کار میں جرمنی کے کردار کو بھی سراہا۔ اسٹولٹن برگ نے کہا، ''یورپ کے وسط میں واقع جرمنی بحر اوقیانوس کے آر پار کے تعلقات میں دل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ نیٹو کے سربراہ کے مطابق روس اور یورپ کے مابین موجودہ بحران میں بھی جرمنی اور جرمن قیادت کا کردار ناگزیر اہمیت کا حامل ہے۔
ژینس اسٹولٹن برگ کے مطابق، ''جرمنی نے اب تک عسکری، انسانی بنیادوں پر امداد اور سیاسی حمایت کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کی ہے، وہ قابل تعریف ہے اور ساتھ ہی برلن حکومت کا یہ اقدام بھی قابل ستائش ہے کہ اس نے یوکرینی مہاجرین کی بڑی تعداد کو بھی ملک میں خوش آمدید کہا ہے۔‘‘
م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)
امن کی فاختائیں اور ان کا تاریخی پس منظر
قدیمی زمانے سے فاختہ کو امن کا نشان قرار دیا جاتا ہے اور موجودہ دور میں اسے عالمی اتحاد کے نشان خیال کیا جاتا یے۔ یوکرین میں جنگ شدید ہوتی جا رہی ہے اور ایسے میں یہ پرندہ پھر دوستی اور اتحاد کی علامت بن گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
ایک فاختہ یوکرین کے لیے
جرمن آرٹسٹ یُوسٹس بیکر نے فرینکفرٹ شہر کی ایک عمارت کی بیرونی دیوار پر ایک انتہائی بڑی فاختہ کی پینٹنگ بنائی ہے۔ یہ فاختہ شاخِ زیتون پکڑے ہوئے ہے اور اس کو یوکرینی جھنڈے کے رنگوں یعنی نیلے اور زرد سے سمویا گیا ہے۔ یہ تصویر یوکرین کے لیے فرینکفرٹ کے شہریوں کی جانب سے اظہارِ امید و یکجہتی ہے۔ اس فاختہ کو بنانے میں یُوسٹس بیکر کو تین دن لگے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سفید، خاص اور اچھا
قدیمی زمانے سے فاختہ کے ساتھ خاص قوتوں کو نتھی کرنے کا سلسلہ پایا جاتا ہے۔ یہ معصومیت کا نشان بھی قرار دی جاتی ہے۔ عام لوگوں کا گمان ہے کہ اس پرندے میں پِتہ نہیں ہوتا اور اس باعث یہ کڑواہٹ اور بدی سے مبریٰ ہے۔ کلاسیکی مزاج میں اس پرندے کو نسائی نزاکت سے بھی تعبیرکیا جاتا ہے۔ سفید فاختہ محبت کی یونانی دیوی ایفروڈائیٹ کی ساتھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Leemage
بائبل کا استعارہِ اُمید
کشتی میں چالیس ایام گزارنے کے بعد پیغمبر نوح نے فاختہ کو سیلاب کے اترنے کی خبر لانے کے لیے بھیجا تھا۔ شاخِ زیتون کے ساتھ اس کی واپسی نے سیلاب کے ختم ہونے اور آسمانی امن کا مژدہ سنایا۔
تصویر: picture alliance / imageBROKER
امن کا آئیکون
مشہورِ عالم مصور پکاسو کی ایک پینٹنگ فاختہ کو سن 1950 کی دہائی میں امن تحریک کا نشان بنایا گیا اور یوں یہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔ پکاسو نے فاختہ کو کئی مرتبہ اپنی پینٹنگز میں استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام پالوما رکھا۔ ہسپانوی زبان میں فاختہ کو پالوما کہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
’کھلا ہاتھ‘
پکاسو کی پینٹنگ سے متاثر سوئس فرانسیسی ماہرِ تعمیرات لی کوربوزیئر نے شمالی بھارتی شہر چندی گڑھ میں تصویر میں دکھائی دینے والے اسکلپچر کو تخلیق کیا۔ اس میں انسانی ہتھیلی کو ایک فاختہ میں ضم ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اسے سن 1947 میں بھارت کی انگریز راج سے آزادی کا نشان قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance / Photononstop
امن تحریک کا نشان
گزشتہ نصف صدی سے فاختہ امن تحریک کا نشان ہے۔ امن کے حصول کے ہر احتجاج میں فاختہ کی تصویر والے جھنڈے بلند کیے جاتے ہیں، یہ امن کی امید کا حوالہ خیال کیا جاتا ہے۔ تحریک کا لوگو فن لینڈ کی ایک فوٹوگرافر میکا لاؤنیس کی سن 1970 میں بنائی گئی ایک تصویر سے ماخوذ ہے۔
تصویر: Daniel Naupold/picture alliance/dpa
پرندے آزاد کرنا
پرندے آزاد کرنے کا استعارہ صرف سیاسی میدان میں مقبول نہیں بلکہ نجی تقریبات اور شادی بیاہ پر بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ سفید پرندے وفاداری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ کھیلوں کی تقریبات میں فاختاؤں کو اڑانے سے مراد مخالف ٹیموں کے لیے محبت و خلوص کا اظہار ہے۔
تصویر: picture alliance/Actionplus
کاغذی فاختائیں
سن 2021 کے موسم گرما میں برطانوی شہر لیورپول کے کیتھڈرل میں پندرہ ہزار کاغذ کی فاختاؤں کو لٹکایا گیا تھا۔ آرٹسٹ پیٹر والکر کے اس ڈیزائن سے مراد امن تھا۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ان کاغذی فاختاؤں پر اپنے امن کے پیغامات درج کریں۔
تصویر: Peter Byrne/picture alliance
پرانے پیغام کا احیاء
یوکرینی جنگی حالات نے برلن کے شہریوں کو پبلو پکاسو کی پینٹنگ والے جھنڈے کو لہرانے کا پھر موقع دیا۔ سب سے پہلے یہ جھنڈا تھیئٹر کے ڈرامہ نویس اور شاعر بیرٹولڈ بریشٹ نے سن 1950 میں امن کے نشان کے طور پر اپنے تھیئٹر پر لہرایا تھا۔ اس کا احیاء یوکرین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں کیا گیا۔
تصویر: Jens Kalaene/dpa/picture alliance
ایک خونی جنگ
رواں برس جرمن شہر کولون میں کارنیوال کے روزن مونٹاگ یا روز منڈے کی روایتی پریڈ امن ریلی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس میں پچیس ہزار افراد شریک تھے۔ اس پریڈ میں شامل ایک فلوٹ پر خون میں لتھڑی ساختہ چھید کرتا روسی جھنڈے دکھایا گیا تھا۔