1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین میں لڑنے گئے تین غیرملکی شہریوں کو سزائے موت

10 جون 2022

مبینہ 'ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ' کی ایک عدالت نے جنگ میں یوکرین کی مدد کرنے کے الزام میں دو برطانوی اور ایک مراکشی شہری کو موت کی سزا سنائی ہے۔ برطانیہ نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

Ukraine Aiden Aslin, Shaun Pinner und Brahim Saadoun im Gerichtsaal in Donetsk
تصویر: Vladimir Gerdo/TASS/dpa/picture alliance

روسی خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کے مطابق روس نواز یوکرین کے ڈونیٹسک علاقے میں علیحدگی پسندوں کی ایک عدالت نے یوکرین میں روسی فوج کے خلاف جنگ لڑنے کے دوران گرفتار کیے گئے دو برطانوی شہری شان پینر اور آئیڈن اسلین اور ایک مراکشی شہری براہیم سعدون کو موت کی سزا سنائی ہے۔

ریانووستی کے مطابق ان قیدیوں کو گولی مار دی جائے گی تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس سزا پر کب اور کہاں عمل درآمد کیا جائے گا۔

حالانکہ جس عدالت نے یہ سزا سنائی ہے اسے بین الاقوامی برادری تسلیم نہیں کرتی۔ یہ عدالت ڈونیٹسک جمہوریہ میں ہے جس نے روس کی حمایت کے بعد خود کو یوکرین سے الگ ایک آزاد ملک کے طور پر اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ روس کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

 تینوں غیر ملکی شہریوں پر پیشہ ور قاتل ہونے، اقتدار کے حصول کے لیے تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے تربیت حاصل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ روسی میڈیا کے مطابق ان تینوں نے اپنے "جرم کا اعتراف" کرلیا ہے۔

 روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق یہ تینوں افراد عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

برطانیہ نے فیصلے پر نکتہ چینی کی

برطانیہ اور یوکرین نے ڈونیٹسک عدالت کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے جنگی مجرموں کے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

برطانیہ نے کہا کہ وہ اپنے دونوں شہریوں کو موت کی سزا سنائے جانے پر کافی فکر مند ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے کہا کہ دونوں کی رہائی کے لیے یوکرین کے ساتھ مل کر کوششیں جاری ہیں۔

ایک برطانوی ترجمان نے کہا کہ جنگی مجرموں کا استعمال سیاسی فائدے کے لیے نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے جنیوا کنونشن کا حوالہ دیا جس کے تحت جنگی مجرموں کو معافی کی گنجائش موجود ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے بھی عدالت کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے ایک "فرضی فیصلہ" قرار دیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا،" میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہوں۔ انہیں مدد کرنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔"

مبصرین یہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ برطانیہ اپنے ان دونوں شہریوں کے بدلے میں کچھ روسیوں کو رہا کرسکتا ہے۔

تصویر: UKRAINIAN PRESIDENTIAL PRESS SERVICE/AFP

یہ لوگ زیلنسکی کی اپیل پر آئے تھے

برطانوی پارلیمان میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹریزن ہاٹ نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن پر "ایک طرح سے انتقامی کارروائی کرنے اور لوگوں کا اغوا کرنے"کا الزام لگایا۔ انہوں نے ڈونیٹسک کی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کہا،" یہ کوئی ملک نہیں ہے۔ یہ کوئی عدالت نہیں ہے۔ وہ جج نہیں، عام لوگ ہیں جو لباس پہن کر جج ہونے کا ڈھونگ کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی بے رحم کارروائی ہے جو تین بے گناہ لوگوں کے خلاف کی گئی ہے۔ "

روس کی جانب سے یوکرین پر 24فروری کو فوجی حملے کے بعد یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے غیرملکیوں سے اپنے یہاں آکر لڑنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد 16ہزار رضاکار وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے کچھ جنگ میں براہ راست حصہ لینے اور کچھ انسانی امداد کے لیے کام کرنے گئے تھے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں