1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرین نے روس پر برطانوی ساختہ سٹارم شیڈو میزائل داغے، رپورٹ

21 نومبر 2024

یوکرین نے امریکی میزائلوں کے بعد اب برطانوی ساختہ میزائلوں سے بھی روس کو نشانہ بنایا ہے۔ اس دوران کئی ملکوں نے کییف میں اپنے سفارت خانے یہ کہتے ہوئے بند کر دیے کہ انہیں ممکنہ فضائی حملے کی اطلاع ملی ہے۔

سٹارم شیڈو میزائل
سٹارم شیڈو میزائلوں کی رینج 250 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور یہ یوکرین کو روس کے اندر گہرائی تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرے گیتصویر: MBDA/ABACA/picture alliance

برطانوی میڈیا نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کی ہے کہ یوکرین نے برطانوی ساختہ سٹارم شیڈو میزائل روس پر داغے ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ نے ایک نامعلوم مغربی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین نے مبینہ طور پر برطانوی ساختہ سٹارم شیڈو میزائل روسی علاقے میں داغے ہیں۔ برطانوی خبر رساں اداروں بشمول دی گارڈین اور فنانشل ٹائمز نے بعد میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج کی بنیاد پر اسی طرح کی رپورٹیں شائع کیں۔

روسی فوجی مداخلت کے ہزار دن: 2025ء فیصلہ کن ہو گا، زیلنسکی

برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ترجمان نے کہا کہ ان کا دفتر ایسی رپورٹوں یا آپریشنل معاملات پر تبصرہ نہیں کرے گا۔

برطانیہ نے گزشتہ سال یوکرین کو سٹارم شیڈو کروز میزائل فراہم کیے تھے اور کہا تھا کہ وہ انہیں یوکرین کی حدود میں استعمال کر سکتا ہے، لیکن یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کئی مہینوں سے روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

سٹارم شیڈو میزائلوں کی رینج 250 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور یہ یوکرین کو روس کے اندر گہرائی تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرے گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے پہلے خبردار کیا تھا کہ روسی سرزمین پر امریکی اور برطانوی ساختہ میزائلوں کا استعمال نیٹو کے روس کے ساتھ براہ راست تنازع میں داخل ہونے کے مترادف ہو گا۔

یوکرین جنگ: امریکی میزائلوں سے روس کے اندر حملوں کی اجازت

گزشتہ دنوں یوکرینی فوج نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں سے پہلی مرتبہ روسی سرزمین کو نشانہ بنایا۔ واشنگٹن کی اجازت کے بعد ہی کییف حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے تاہم یوں یوکرین جنگ میں شدت پیدا ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔

امریکہ نے کییف میں اپنا سفارت خانہ یہ کہتے ہوئے بند کر دیا کہ اسے ممکنہ فضائی حملے کی اطلاع ملی ہےتصویر: Sputnik/dpa/picture alliance

کئی ملکوں نے کییف میں سفارت خانے بند کر دیے

امریکہ نے کییف میں اپنا سفارت خانہ یہ کہتے ہوئے بند کر دیا کہ اسے ممکنہ فضائی حملے کی اطلاع ملی ہے۔

امریکی سفارتخانے کے بند ہونے کے اعلان کے بعد، تین یورپی ممالک، اٹلی، اسپین اور یونان، نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بدھ کو اپنے سفارت خانے بند کر رہے ہیں۔

کییف میں اٹلی، اسپین اور یونان کے سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ دن بھر چوکس رہیں اور اگر ہو سکے تو گھروں میں رہیں۔

یوکرین جنگ: روسی حملے کے ایک ہزار دن مکمل

چاروں ممالک میں سے کسی نے بھی اس بارے میں وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے، سوائے فضائی حملے کے خطرے کے، الرٹ جاری کیوں کیا۔

دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تصدیق کی ہے کہ یوکرین کے دارالحکومت کییف میں امریکی سفارت خانہ جمعرات کو دوبارہ کھل جائے گا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس قسم کی دھمکی نے بدھ کو سفارتخانے کو بند کرنے پر مجبور کیا تھا۔

ملر نے کہا کہ ہم اپنے اہلکاروں کی حفاظت اور حفاظت کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر جعلی بم وارننگ بھیج کر شہریوں کے خلاف "نفسیاتی" آپریشن کر رہا ہےتصویر: Florent Vergnes/AFP

یوکرین نے کییف پر حملے کی دھمکی کو مسترد کر دیا

یوکرین کی وزارت خارجہ نے بدھ کو کییف میں متعدد غیر ملکی سفارت خانے بند ہونے کے بعد روسی حملے کی دھمکیوں کو مسترد کر دیا ہے۔

یوکرین: ملک بھر میں فضائی حملے کا الرٹ جاری

وزارت خارجہ نے ٹیلی گرام پر کہا، "ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ جارح ریاست کی طرف سے حملوں کا خطرہ بدقسمتی سے یوکرائنیوں کے لیے 1,000 دنوں سے روزانہ کی حقیقت ہے۔"

دریں اثنا، یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر جعلی بم وارننگ بھیج کر شہریوں کے خلاف "نفسیاتی" آپریشن کر رہا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے ٹیلی گرام پر کہا، "میسنجرز اور سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے آج یوکرین کے شہروں پر 'خاص طور پر بڑے شہروں پر' میزائل اور بم حملے کے خطرے کے بارے میں ایک پیغام پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ پیغام جعلی ہے، یہ نفسیاتی آپریشن ہے اور اس میں روسی مخصوص گرائمر کی غلطیاں موجود ہیں۔"

یوکرین کا روس پر امریکی ساختہ میزائلوں سے حملہ

03:07

This browser does not support the video element.

ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹر‍ز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں