1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین پر جنگ شروع کرنے کے روسی الزام میں کتنی صداقت ہے؟

4 مارچ 2022

روس نے جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری یوکرین پر عائد کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ ڈونباس میں مقامی آبادی کو منظم انداز میں ختم کرنے کے سلسلے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈونباس میں سن 2014 سے حالات کشیدہ تھے۔

Krim I Russischer Panzer
تصویر: Konstantin Mihalchevskiy/SNA/imago images

روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے یوکرین پر جنگ شروع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس نے جنگ شروع نہیں کی بلکہ وہ اسے ختم کر رہا ہے۔

اس پوسٹ میں زاخاروفا نے لکھا کہ ڈونباس تنازعے کو حل کرنے کے لیے روسی فوج کشی ضروری تھی کیونکہ اس علاقے میں کئی سالوں سے جنگی حالات پیدا تھے۔ زاخاروفا کے مطابق یوکرین منظم انداز میں ڈونباس کی مقامی آبادی کا صفایا  کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔

جوہری پلانٹ پر روسی حملہ کتنا خطرناک تھا؟

 ایسی ہی بات روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے فوج کشی کا اعلان کرتے ہوئے کہی تھی۔ اس وقت روسی صدر نے ملکی دستور کی شق اکاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ملکی دفاع کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

ماریا زخاروفا کا فیس بک پر پوسٹ کیا گیا بیانتصویر: facebook.com/maria.zakharova.167

فیکٹ چیک: روسی بیان غلط ہے

ڈی ڈبلیو کے فیکٹ چیک کے مطابق ماریا زاخاروفا کا بیان غلط ہے۔ موجودہ مسلح تنازعہ چوبیس فروری سن 2022 کو شروع ہوا جب روسی افواج یوکرین میں داخل ہوئی تھیں۔ اس سے کچھ وقت قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تقریر کرتے ہوئے اس فوج کشی کو 'خصوصی ملٹری آپریشن‘ قرار دیا تھا۔ اس فوج کشی سے لڑائی شروع ہوئی اور پھر جنگی حالات میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔

روسی وزارتِ خارجہ کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد ہے کہ مشرقی یوکرینی علاقے ڈونباس میں مقامی آبادی کا منظم انداز میں صفایا کیا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے بھی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔

سن 2014 کا مسلح تنازعہ روس نے شروع کیا تھا

روس اور یوکرین یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ سن 2014 کا مسلح تنازعہ شروع کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب سابق یوکرین کے صدر وکٹور یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ شراکتی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ مغرب نواز مظاہرین کے شدید احتجاج نے یانوکووچ کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔

انڈو پیسیفیک خطے کا حال یوکرین جیسا نہیں ہونے دیں گے، کواڈ رہنما

اسی دور میں سبز وردیوں میں ملبوس سپاہیوں نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ روسی حکام نے کہا تھا کہ سبز وردیوں والے سپاہیوں کا روس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ کریملن کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔

مشرقی یوکرین کے مسلح تنازعے کی ٹائم لائن

اسی سال یعنی سن 2014 میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرایا گیا اور عوام سے پوچھا گیا کہ وہ جزیرہ نما کریمیا کا روس سے الحاق چاہتے ہیں۔ کثیر آبادی نے ریفرنڈم میں پوچھے گئے سوال کا جواب مثبت دیا اور پھر اس علاقے کو روسی فیڈریشن میں ضم کر دیا گیا۔ عالمی برادری نے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

سن 2014 ہی میں روس نے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں کی تحریک آزادی کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ اس تحریک کو کییف کی حکومتی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔ سن 2014 میں ڈونیٹسک اور لوہانسک نے خود کو' پیپلز ریپبلک‘ قرار دے دیا۔

یوکرین: کییف میں بھارتی طالب علم گولی لگنے سے زخمی

ماسکو حکومت نے ان دونوں علاقوں کی آزادی کو رواں برس فوج کشی سے چند روز قبل اکیس فرروری کو تسلیم کر لیا تھا۔ چوبیس فروری کو روسی افواج یوکرینی سرزمین میں داخل ہوئی تھیں۔

نسل کشی کا کوئی ثبوت نہیں

فیس بک پر روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے اپنی پوسٹ میں تحریر کیا کہ مشرقی یوکرین میں جاری جنگ میں کم از کم تیرہ ہزار افراد کو ہلاک کیا گیا اور اسے ڈونباس کی آبادی کو منظم انداز میں ختم کرنے کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔

روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفاتصویر: Russian Foreign Ministry/ITAR-TASS/imago images

اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں کہ مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں مقامی آبادی کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ آرگنائزیشن برائے یورپی سکیورٹی و تعاون کے مبصرین سن 2014 میں اس علاقے میں حالات کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کسی رپورٹ میں نسل کشی یا وسیع پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکت کو رپورٹ نہیں کیا۔

روس اور یوکرین عارضی جنگ بندی پر راضی، سعودی عرب کی ثالثی کی پیشکش

اقوام متحدہ نے البتہ فریقین (یوکرینی فوج اور علیحدگی پسند باغی) پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام ضرور عائد کیا تھا۔

یہ درست ہے کہ اس مسلح تنازعے میں کم از کم تیرہ ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں چار ہزار ایک سو یوکرینی فوجی ہیں جبکہ پانچ ہزار چھ سو پچاس علاقائی باغی اور تین ہزار تین سو پچاس عام شہری۔

کیتھرین ویسلووسکی (ع ح/ ع ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں