یوکرین پر روسی حملہ، کیا ’سرد جنگ دوم‘ کا آغاز ہو چکا ہے؟
17 مارچ 2022
مغرب میں کئی تجزیہ کار ’سرد جنگ دوم‘ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے اور اس پر چینی حمایت نے یہ واضح کر دیا ہے ایک مرتبہ پھر دو کیمپ نمودار ہو رہے ہیں اور اس بار چین مغرب کے مخالف کے طور پر ابھر رہا ہے۔
اشتہار
یوکرین میں جنگ کے آغاز سے ہی یہ بات واضح تھی کہ چین روسی حملے کی مذمت نہیں کرے گا۔ پچیس فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کی مذمت میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا، جس پر رائے دہی میں چین نے اپنا ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ووٹنگ میں چین نے شرکت نہ کی۔
گزشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ ان کے ملک کی روس کے ساتھ 'دوستی‘ پتھر کی طرح مضبوط ہے اور یہ باہمی تعلقات عالمی امن و استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ وانگ کے مطابق 'سرد جنگ کے دور کی سوچ‘ یوکرین میں جنگ کی وجہ بنی۔ وانگ اکثر روایتی حریف ملک امریکہ پر تنقید کرتے وقت یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
مغرب بمقابلہ مشرق
سرد جنگ سن 1947 سے 1989ء تک جاری رہی اور اس میں دو بلاک یا کیمپ نمودار ہوئے۔ مغربی طاقتیں، جن کی قیادت امریکہ کر رہا تھا، اور مشرقی بلاک، جس کی قیادت سابق سوویت یونین نے کی۔ مغربی بلاک سرمایہ داری نظام کا حامی تھا جبکہ مشرقی کیمپ کمیونزم کا۔ سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ہوا۔
چینی موقف کے مطابق امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اب بھی 'سرد جنگ کے دور کی سوچ‘ کے حامل ہیں اور روس کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ چین انڈو پیسیفک کے خطے میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے حوالے سے بھی نیٹو اور امریکہ کو خطرہ مانتا ہے۔
سرد جنگ میں اربوں کے کرنسی نوٹوں کا محافظ جرمن تہ خانہ
وفاقی جرمن بینک نے سرد جنگ کے دور میں پندرہ ارب مارک کے متبادل کرنسی نوٹ اپنے ایک ’خفیہ‘ تہ خانے میں رکھے ہوئے تھے، جو آج کل ایک نجی میوزیم ہے۔ اٹھارہ مارچ 2016ء سے اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
زمین کے نیچے خفیہ دنیا
جب ساٹھ کے عشرے میں سرد جنگ اپنے نقطہٴ عروج پر پہنچی تو وفاقی جرمن بینک نے ہنگامی کرنسی محفوظ رکھنے کے لیے تہ خانوں کا ایک پورا نظام تعمیر کیا۔ اس منصوبے کو خفیہ اور دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جانا مقصود تھا۔ دریائے موزل کے کنارے ایک رہائشی علاقے میں نو ہزار مربع میٹر رقبے پر تین ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ کی مدد سے تین سو میٹر لمبی راہداریاں اور پندرہ سو مربع میٹر کا تہ خانہ بنایا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تہ خانے کا ’انتظام‘
مجوزہ رقبے پر ایک میڈیکل ڈاکٹر کی سابقہ رہائش کو بینک کے ملازمین کے تربیتی مرکز کی شکل دے دی گئی۔ اس ’تربیتی مرکز‘ کے معدودے چند ملازمین میں سے صرف سربراہ کو پتہ ہوتا تھا کہ اس تہ خانے میں رکھا کیا ہے۔ یہ کمرہ بھی اسی تہ خانے میں ہے اور قریب ہی بیوشل کے مقام پر واقع ایٹم بموں کے اڈے پر کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے ہنگامی دفتر کا کردار ادا کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تابکاری کا خوف
کسی جوہری حملے کی صورت میں تہ خانے کے اندر موجود عملے کے لیے یہ انتظام موجود تھا کہ وہ خصوصی لباس پہن کر اور گیس ماسک لگا کر خود کو تابکاری شعاعوں کے اثرات سے بچا سکتے تھے۔ ایک کمرے میں پانی کے ذریعے آلودگی ختم کرنے کا انتظام تھا۔ اس کے علاوہ ایک آلہ تھا، جس کی مدد سے تہ خانے میں موجود عملے پر تابکاری کے اثرات کو ماپا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
175 افراد کے لیے رہائش
یہ تہ خانہ محض ہنگامی کرنسی اور اُس کے محافظوں کی خفیہ پناہ گاہ ہی نہیں تھا۔ کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے 175 انسانوں کو بھی پناہ فراہم کرنا تھی۔ تہ خانے میں صحت و صفائی کی جو سہولتیں بنائی گئی تھیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارا انتظام صرف مردوں کے لیے تھا، عورتوں کے لیے نہیں۔ اندر موجود اَشیائے ضرورت کے ذخائر بھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ
اس جگہ سے تہ خانے کا عملہ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے اُستوار کر سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی فون کی چار اور ٹیلی پرنٹر کی دو لائنوں کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اربوں مالیت کی کرنسی تک جانے کا راستہ
ٹنوں وزنی فولادی دروازوں کے پیچھے پڑے کرنسی نوٹوں تک محض بینک کے انسپکٹرز کی رسائی تھی۔ وہی ان دروازوں کو کھولنے کے کوڈ سے واقف تھے۔ جو چند ایک چابیاں تھیں، وہ بھی تہ خانے کے اندر نہیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ان دروازوں کو اکثر کھولا جاتا تھا، وہاں پڑی رقم گننے کے لیے۔ رُبع صدی کے دوران غالباً ایک بھی کرنسی نوٹ ادھر سے اُدھر نہیں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
پندرہ ارب مارک کی متبادل کرنسی
کسی دشمن قوت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈوئچ مارک کے جعلی نوٹ گردش میں لانے کی صورت میں ان نوٹوں کو متبادل کرنسی بننا تھا، گو اس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ 1988ء میں یعنی سرد جنگ کے خاتمے سے بھی پہلے یہ ڈر جاتا رہا اور یہ کرنسی نوٹ تلف کر دیے گئے۔ تاریخی دستاویز کے طور پر ان میں سے محض چند ایک کرنسی نوٹ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اب ایک نجی عجائب گھر
اب اس تہ خانے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ عجائب گھر ایک جرمن جوڑے نے قائم کیا ہے۔ پیٹرا اور اُن کے شوہر مانفریڈ روئٹر ویسے تو ایک قریبی قصبے میں ایک بس کمپنی چلاتے ہیں۔ 2014ء میں اُنہوں نے یہ تہ خانہ اور اس سے جڑا احاطہ خرید لیا۔ یہ جرمن جوڑا بینکاروں کے سابقہ ’خفیہ تربیتی مرکز‘ کو ایک ہوٹل کی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
سیاحوں کے لیے باعث کشش
آج کل یہ تہ خانہ تحفظ کے دائرے میں آنے والی قومی یادگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ سیاح دور و نزدیک سے کوخم کے مشہور نیو گوتھک قلعے اور ازمنہٴ وُسطیٰ کے قدیم کوخم جیسے دیگر قابل دید مقامات کے ساتھ ساتھ اس تہ خانے کو بھی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ گروپوں کے لیے گائیڈڈ ٹورز کا انتظام تو پہلے سے ہی موجود ہے جبکہ اس سال ایسٹر کی تعطیلات سے لوگ انفرادی طور پر بھی گائیڈ کی مدد سے اس تہ خانے کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
'سرد جنگ دوم‘
مغرب میں کچھ سیاست دان اور تجزیہ کار اب ایک نئی سرد جنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ‘Cold War 2.0’ کی اصطلاح واشنگٹن اور بیجنگ اور یورپی یونین اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ مارچ 2019 میں یورپی کمیشن نے باضابطہ طور پر چین کو 'نظام کے لحاظ سے حریف‘ قرار دیا تھا۔
چین کے نقطہ نظر سے امریکہ، اس کے بین الاقوامی پارٹنر اور نیٹو کے عزائم، چین اور روس کے مفادات سے متصادم ہیں۔
ماہر سیاسیات میشل لوبینا، جو کئی سال سے روسی اور چینی تعلقات پر تحقیق کر رہے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں چین اور مغرب مد مقابل ہیں۔ اس تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے سرد جنگ کی ذہنیت کے بارے میں بات کرنا اور روسی حملے کے لیے جواز کے طور پر پیش کرنا 'منافقانہ‘ بات ہے۔
سن 2010 کے اوائل میں، اس وقت کے چینی وزیر خارجہ یانگ جیچی نے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے کہا، ''چین ایک بڑا ملک ہے، دوسرے ممالک چھوٹے ہیں، یہ صرف ایک حقیقت ہے۔‘‘ یانگ کا مطلب یہ تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو سرد جنگ کی روایت کے مطابق چین کی قیادت کے دعوے کے سامنے جھکنا چاہیے۔
سرد جنگ کی حیران کن باقیات
ہالینڈ کے فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے گزشتہ دو عشروں کے دوران سرد جنگ کے دور کے بچ جانے والے بنکرز، ٹینکوں، نگرانی اور عسکری تربیت کے مراکز کی بےشمار تصاویر اتاری ہیں۔ ان تصاویر کی نمائش برلن میں جاری ہے۔
تصویر: Martin Roemers
غرق ہونے کے قریب
سرد جنگ کے دور میں تعمیر کیا جانا والا یہ بنکر لیٹویا کے قریب بحیرہ بالٹک میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ وقت دور نہیں، جب یہ پانی کے نیچے ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام تک کا وقت سرد جنگ کا دور کہلاتا ہے۔ اس دوران سابق سوویت یونین اور اس کے حامی کمیونسٹ ممالک کے زیادہ تر مغربی ریاستوں کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
تصویر: Martin Roemers
بدترین صورت حال کی تیاری
مشرق اور مغرب، دونوں خطوں میں بنکرز بنائے گئے تھے، میزائل نصب کیے گئے تھے اور نگرانی کے مراکز قائم کیے گئے تھے تاکہ خود کو دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس تصویر میں موجود یہ ایٹمی بنکر مغربی جرمن فوج نے کسی ممنکہ جوہری جنگ سے بچنے کے لیے لاؤراخ نامی علاقے میں تعمیر کیا تھا۔
تصویر: Martin Roemers
جنگی تربیت
1989ء سے 2009ء تک فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے دس مختلف ممالک میں سرد جنگ کی باقیات کو تلاش کیا۔ اس دوران انہوں نے 73 تصاویر بنائیں، جنہیں چار مارچ سے برلن کے تاریخی میوزیم میں شروع ہونے والی ایک نمائش میں رکھا گیا ہے۔ یہ تصویر سابق سوویت یونین میں ایک فوجی تربیت گاہ کی ہے۔
تصویر: Martin Roemers
نئی سرد جنگ؟
روسی وزیر اعظیم دیمتری میدویدیف نے گزشتہ ماہ میونخ میں سلامتی کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک ’نئی سرد جنگ‘ کا ذکر کیا تھا۔ تاہم فوٹوگرافر روئمرز کا خیال ہے کہ اس طرح کی کسی دوسری جنگ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تصاویر کے ذریعے جنگ کے دوران تباہ ہونے والی جگہوں اور انسانی المیے کو واضح کرنا ان کا عزم ہے۔
تصویر: Martin Roemers
کئی دہائیوں تک تربیتی مرکز
سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا الٹن گرابوو وہ مقام ہے، جہاں سابق سوویت دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ تاہم اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اس سے قبل جرمن سلطنت سے لے کر نازی دور تک بھی فوجیوں کو عسکری تربیت دی جاتی رہی تھی۔ بظاہر ویران دکھائی دینے والے اس مقام پر آج بھی وفاقی جرمن فوجی مختلف طرح کی تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔
تصویر: Martin Roemers
آخر میں روشنی
فوٹوگرافر مارٹن روئمرز کی یہ تصاویر تاریخی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس دوران ہر اس جگہ کا دورہ کیا، جہاں سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوجیوں کا انخلاء ہوا تھا۔ یہ برطانیہ میں موجود ایک زیر زمین بنکر سے نکلنے کے لیے بنائی گئی ایک سرنگ کی تصویر ہے۔ مارٹن روئمرز کی ان تصاویر کی نمائش رواں برس چودہ اگست تک جاری رہے گی۔