امریکہ کے بعد برطانیہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔ جرمنی بھی اب آگے آتا جا رہا ہے لیکن اپنے اتحادیوں کی طرف سے دباؤ کے باوجود یوکرین کو کوئی جنگی ٹینک مہیا نہیں کرنا چاہتا۔
اشتہار
امریکہ
واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی عسکری مدد کے لیے جس تازہ ترین امدادی پیکج کی منظوری دی ہے، اس کی مالیت 675 ملین ڈالر بنتی ہے۔ اپنی نوعیت کے اس 20 ویں امدادی پیکج کے تحت کییف حکومت کو 100 ایسی بکتر بند فوجی ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی مہیا کی جائیں گی، جن کا مقصد اگلے محاذوں پر فرائض انجام دینے والی یوکرینی فوجیوں کی حفاظت ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ یوکرین کو ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹم اور کئی دیگر اقسام کا جنگی گولہ بارود بھی مہیا کرے گا۔ واشنگٹن اب تک یوکرین کو توپوں کے 36 ہزار گولے بھی مہیا کر چکا ہے، جنہیں استعمال کرتے ہوئے کییف حکومت کے دستے جولائی سے اب تک ملک کے شمال مشرق اور جنوب میں کئی علاقے روسی فوجی دستوں کے قبضے سے آزاد کرا چکے ہیں۔
اب واشنگٹن نے یوکرین کو 'ونٹر پیکج‘ کے نام سے جو امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں سردیوں میں استعمال ہونے والے آلات اور ساز و سامان بھی شامل ہیں اور 50 ایسی فوجی بکتر بند گاڑیاں بھی، جو زخمیوں کے علاج اور ان کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہو سکیں گی۔ امریکہ 24 فروری کو شروع ہونے والے روسی فوجی حملے کے بعد سے اب تک یوکرین کو مجموعی طور پر 14.5 بلین ڈالر کی عسکری امداد مہیا کر چکا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی میں رامشٹائن کے فضائی اڈے پر امریکہ کے 40 سے زائد اتحادی ممالک نمائندوں کے ایک حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے کہا، ''یوکرین میں جنگ کی شکل و صورت اب بدلتی جا رہی ہے۔‘‘
برطانیہ
برطانیہ امریکہ کے بعد یوکرین کی عسکری مدد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن لندن میں برطانوی وزارت دفاع نے اس امداد سے متعلق کوئی اعداد و شمار باقاعدہ طور پر جاری نہیں کیے۔ تاہم یہ امر مصدقہ ہے کہ لندن اب تک کییف کو کئی طرح کے دفاعی نظام مہیا کر چکا ہے۔ ان میں M270 MLRS کہلانے والے وہ ملٹی لانچ راکٹ سسٹم بھی شامل ہیں، جن کی مدد سے کییف کی فوجوں نے روسی دستوں کے خلاف اپنے ملک کے کئی مقبوضہ علاقوں میں واضح کامیابیاں حاصل کیں۔ جون میں لندن حکومت نے یہ تصدیق بھی کر دی تھی کہ اس نے فروری میں اس جنگ کے آغاز کے بعد سے یوکرینی دستوں کے لیے برطانوی ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت کے کئی فوجی پروگرام بھی مکمل کیے ہیں۔
جون ہی کے اواخر میں میڈرڈ میں نیٹو کے ایک سمٹ کے موقع پر برطانیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوکرین کے لیے ایئر ڈیفنس سسٹم، ملٹری ڈرونز اور توپوں کے لیے گولہ بارود کے حوالے سے ایک بلین پاؤنڈ (1.15 بلین یورو) مالیت کے پروگرام کی خاطر مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔ برطانیہ اس سال اب تک یوکرین کو 3.8 بلین پاؤنڈ (4.4 بلین ڈالر) کی مالی امداد بھی مہیا کر چکا ہے۔
جرمنی
برطانیہ کی طرح جرمنی بھی یوکرین کے لیے اپنی طرف سے عسکری امداد سے متعلق ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کرتا تاہم برلن نے کییف کو ہتھیاروں کے کئی انتہائی جدید ترین نظام مہیا کیے ہیں۔ ان میں دشمن کی آرٹلری تنصیبات کی جگہوں کا تعین کرنے والے ریڈار سسٹم کوبرا بھی شامل ہیں اور IRIS-T SLM نامی ایئر ڈیفینس سسٹم بھی۔ برلن میں وزارت دفاع کے مطابق وہ اب تک کییف کو 'گیپارڈ‘ کہلانے والے 20 ایسے ٹینک بھی مہیا کر چکا ہے، جو فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان ایئر ڈیفینس ٹینکوں کو چلانے کے لیے موسم گرما میں جرمنی نے یوکرینی فوجی دستوں کو اپنے ہاں تربیت بھی دی تھی۔
اس وقت جرمنی یوکرینی فوج کو جو دیگر ساز و سامان مہیا کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، ان میں پہاڑی علاقوں میں استعمال ہونے والے 12 ٹینک، پلوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے 16 ٹینک اور 200 عسکری مال بردار گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ جرمن حکومت نے آج تک جس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا، وہ یہ ہے کہ آیا ملکی وزارت دفاع وفاقی جرمن فوج کے پاس موجود 'لیوپارڈ ٹو‘ طرز کے جنگی ٹینکوں میں سے بھی کوئی یوکرین کو مہیا کرنا چاہتی ہے۔ یوکرین برلن سے اس سال مارچ سے ان ٹینکوں کی فراہمی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن چانسلر شولس کی حکوت اب تک یہ مطالبہ مسترد ہی کرتی آئی ہے۔
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
جرمن وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم جنوری سے پانچ ستمبر تک برلن حکومت یوکرین کے لیے مجموعی طور پر 733 ملین یورو کی عسکری برآمدات اور فوجی ساز و سامان کی ترسیل کی اجازت دے چکی ہے۔ یہ ترسیلات جرمنی کی طرف سے کییف کو دی جانے والی فوجی امداد کے علاوہ ہیں۔
اشتہار
دیگر ممالک
روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی فوجی مدد کرنے والے ممالک میں یورپی یونین کی رکن کئی دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کییف حکومت کی مدد کی ہے۔ ان ممالک میں ایسٹونیا، لیٹویا، لیتھوانیا اور پولینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں نے یوکرین کی فوجی مدد بھی کی ہے اور اسے سول نوعیت کی امداد بھی دی ہے۔ چوبیس فروری کے روز روسی فوجی حملے کے آغاز کے فوراﹰ بعد پولینڈ نے یوکرین کو سوویت دور کے اپنے عسکری ذخیرے سے 200 سے زائد ٹینک بھی مہیا کیے تھے۔ کییف کی مدد میں دیگر یورپی ممالک میں سے سلوواکیہ، چیک جمہوریہ اور یونان بھی اپنے اپنے طور پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔
م م / ر ب (فرانک ہوفمان)
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔