1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرین کو اب تک کس ملک نے کتنے ہتھیار مہیا کیے؟

13 ستمبر 2022

امریکہ کے بعد برطانیہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔ جرمنی بھی اب آگے آتا جا رہا ہے لیکن اپنے اتحادیوں کی طرف سے دباؤ کے باوجود یوکرین کو کوئی جنگی ٹینک مہیا نہیں کرنا چاہتا۔

Ukraine HIMARS
تصویر: Petra News Agency/dpa/picture alliance

امریکہ

واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی عسکری مدد کے لیے جس تازہ ترین امدادی پیکج کی منظوری دی ہے، اس کی مالیت 675 ملین ڈالر بنتی ہے۔ اپنی نوعیت کے اس 20 ویں امدادی پیکج کے تحت کییف حکومت کو 100 ایسی بکتر بند فوجی ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی مہیا کی جائیں گی، جن کا مقصد اگلے محاذوں پر فرائض انجام دینے والی یوکرینی فوجیوں کی حفاظت ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ یوکرین کو ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹم اور کئی دیگر اقسام کا جنگی گولہ بارود بھی مہیا کرے گا۔ واشنگٹن اب تک یوکرین کو توپوں کے 36 ہزار گولے بھی مہیا کر چکا ہے، جنہیں استعمال کرتے ہوئے کییف حکومت کے دستے جولائی سے اب تک ملک کے شمال مشرق اور جنوب میں کئی علاقے روسی فوجی دستوں کے قبضے سے آزاد کرا چکے ہیں۔

اب واشنگٹن نے یوکرین کو 'ونٹر پیکج‘ کے نام سے جو امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں سردیوں میں استعمال ہونے والے آلات اور ساز و سامان بھی شامل ہیں اور 50 ایسی فوجی بکتر بند گاڑیاں بھی، جو زخمیوں کے علاج اور ان کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہو سکیں گی۔ امریکہ 24 فروری کو شروع ہونے والے روسی فوجی حملے کے بعد سے اب تک یوکرین کو مجموعی طور پر 14.5 بلین ڈالر کی عسکری امداد مہیا کر چکا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی میں رامشٹائن کے فضائی اڈے پر امریکہ کے 40 سے زائد اتحادی ممالک نمائندوں کے ایک حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے کہا، ''یوکرین میں جنگ کی شکل و صورت اب بدلتی جا رہی ہے۔‘‘

کریملن کے لیے پیغام: جرمن چانسلر شولس اگست میں شمالی جرمنی میں یوکرینی دستوں کے ایک تربیتی پروگرام کے معائنے کے دورانتصویر: Marcus Brandt/dpa/picture alliance

برطانیہ

برطانیہ امریکہ کے بعد یوکرین کی عسکری مدد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن لندن میں برطانوی وزارت دفاع نے اس امداد سے متعلق کوئی اعداد و شمار باقاعدہ طور پر جاری نہیں کیے۔ تاہم یہ امر مصدقہ ہے کہ لندن اب تک کییف کو کئی طرح کے دفاعی نظام مہیا کر چکا ہے۔ ان میں M270 MLRS کہلانے والے وہ ملٹی لانچ راکٹ سسٹم بھی شامل ہیں، جن کی مدد سے کییف کی فوجوں نے روسی دستوں کے خلاف اپنے ملک کے کئی مقبوضہ علاقوں میں واضح کامیابیاں حاصل کیں۔ جون میں لندن حکومت نے یہ تصدیق بھی کر دی تھی کہ اس نے فروری میں اس جنگ کے آغاز کے بعد سے یوکرینی دستوں کے لیے برطانوی ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت کے کئی فوجی پروگرام بھی مکمل کیے ہیں۔

جون ہی کے اواخر میں میڈرڈ میں نیٹو کے ایک سمٹ کے موقع پر برطانیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوکرین کے لیے ایئر ڈیفنس سسٹم، ملٹری ڈرونز اور توپوں کے لیے گولہ بارود کے حوالے سے ایک بلین پاؤنڈ (1.15 بلین یورو) مالیت کے پروگرام کی خاطر مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔ برطانیہ اس سال اب تک یوکرین کو 3.8 بلین پاؤنڈ (4.4 بلین ڈالر) کی مالی امداد بھی مہیا کر چکا ہے۔

یوکرینی فوجی دستوں کی جرمنی میں تربیت کے دوران لی گئی ایک تصویرتصویر: U.S. Army/ZUMA Press/picture alliance

جرمنی

برطانیہ کی طرح جرمنی بھی یوکرین کے لیے اپنی طرف سے عسکری امداد سے متعلق ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کرتا تاہم برلن نے کییف کو ہتھیاروں کے کئی انتہائی جدید ترین نظام مہیا کیے ہیں۔ ان میں دشمن کی آرٹلری تنصیبات کی جگہوں کا تعین کرنے والے ریڈار سسٹم کوبرا بھی شامل ہیں اور IRIS-T SLM نامی ایئر ڈیفینس سسٹم بھی۔ برلن میں وزارت دفاع کے مطابق وہ اب تک کییف کو 'گیپارڈ‘ کہلانے والے 20 ایسے ٹینک بھی مہیا کر چکا ہے، جو فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان ایئر ڈیفینس ٹینکوں کو چلانے کے لیے موسم گرما میں جرمنی نے یوکرینی فوجی دستوں کو اپنے ہاں تربیت بھی دی تھی۔

اس وقت جرمنی یوکرینی فوج کو جو دیگر ساز و سامان مہیا کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، ان میں پہاڑی علاقوں میں استعمال ہونے والے 12 ٹینک، پلوں کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے 16 ٹینک اور 200 عسکری مال بردار گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ جرمن حکومت نے آج تک جس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا، وہ یہ ہے کہ آیا ملکی وزارت دفاع وفاقی جرمن فوج کے پاس موجود 'لیوپارڈ ٹو‘ طرز کے جنگی ٹینکوں میں سے بھی کوئی یوکرین کو مہیا کرنا چاہتی ہے۔ یوکرین برلن سے اس سال مارچ سے ان ٹینکوں کی فراہمی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن چانسلر شولس کی حکوت اب تک یہ مطالبہ مسترد ہی کرتی آئی ہے۔

جرمن وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم جنوری سے پانچ ستمبر تک برلن حکومت یوکرین کے لیے مجموعی طور پر 733 ملین یورو کی عسکری برآمدات اور فوجی ساز و سامان کی ترسیل کی اجازت دے چکی ہے۔ یہ ترسیلات جرمنی کی طرف سے کییف کو دی جانے والی فوجی امداد کے علاوہ ہیں۔

دیگر ممالک

روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی فوجی مدد کرنے والے ممالک میں یورپی یونین کی رکن کئی دیگر ریاستیں بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کییف حکومت کی مدد کی ہے۔ ان ممالک میں ایسٹونیا، لیٹویا، لیتھوانیا اور پولینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں نے یوکرین کی فوجی مدد بھی کی ہے اور اسے سول نوعیت کی  امداد بھی دی ہے۔ چوبیس فروری کے روز روسی فوجی حملے کے آغاز کے فوراﹰ بعد پولینڈ نے یوکرین کو سوویت دور کے اپنے عسکری ذخیرے سے 200 سے زائد ٹینک بھی مہیا کیے تھے۔ کییف کی مدد میں دیگر یورپی ممالک میں سے سلوواکیہ، چیک جمہوریہ اور یونان بھی اپنے اپنے طور پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہیں۔

م م / ر ب (فرانک ہوفمان)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں