1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین کی جنگ کے ہتھیاروں کی عالمی تجارت پر اثرات

11 مارچ 2024

انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے تازہ ترین مطالعے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ فرانس نے اسلحہ کی تجارت میں روس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ اس فہرست میں بدستور پہلے نمبر پر ہے اور اس نے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا ہے۔

Bilder zu Story "Sipri Report"
تصویر: Vitaliy Belousov/SNA/imago

 

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ فرانس اسلحہ کی تجارت میں روس کو پیچھے چھوڑ کر اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ہتھیاروں کی فروخت میں اپنی پوزیشن کو مضبوط تر کر لیا ہے۔

انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2022 ء میں روس کے یوکرین پر حملے اور تب سے جاری جنگ نے یورپ میں ڈرامائی انداز میں نئےہتھیاروں  کی خریداری کے رجحان کو آگے بڑھایا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوا ہے۔

دو ہزار چودہ تا دوہزار اٹھارہ کے درمیانی عرصے کے مقابلے میں 2019ء  سے 2023ء تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مجموعی طور پر ہتھیاروں کی تجارت میں 3.3 فیصد کمی آئی، لیکن اس عرصے میں یورپی ممالک کی طرف سے اسلحے کی درآمد پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں دگنی ہو گئی۔

یورپی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کا بڑا حصہ یعنی 55 فیصد امریکہ سے آتا ہے، جو گزشتہ مدت کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔

روس کی برآمدات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ فرانسیسی فروخت میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تصویر: RU-RTR Russian Television/AP/dpa/picture alliance

امریکہ اسلحے کا سب سے بڑا تاجر

امریکہ نے اپنے ہتھیاروں کی مجموعی برآمدات میں 17 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ امریکی ہتھیاروں کی یورپی ممالک کو فروخت سے ممکن ہوا۔ امریکی ہتھیار سازوں نے 107 ممالک کو اسلحہ فروخت کیا جو کہ SIPRI کی جانب سے اب تک کروائے گئے مطالعے میں ہتھیاروں  کی سب سے بڑی تجارت ہے۔

ٹاؤرس کروز میزائل کتنا خطرناک ہے؟

02:06

This browser does not support the video element.

SIPRI آرمز ٹرانسفر پروگرام کے ڈائریکٹر میتھیو جارج کے بقول،''امریکہ نے ہتھیاروں کے فراہم کنندہ ملک کے طور پر اپنے عالمی کردار میں مزید اضافہ کر لیا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔ یعنی زیادہ ممالک کو اتنے زیادہ ہتھیار فراہم کرنا جتنے اُس نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیے۔‘‘

میتھیو جارج نے مزید کہا، ''یہ حقیقت ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب ابھرتی ہوئی طاقتوں کی طرف سے امریکہ کے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی غلبے کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔‘‘

 یہ کوئی حیرت انگیز امر نہیں کہ یورپی ملک یوکرین میں ہتھیاروں کی درآمدات میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء  سے 2023 ء تک، یوکرین بھارت، سعودی عرب اور قطر کے بعد دنیا بھر میں ہتھیاروں کا چوتھا بڑا خریدار ملک بن گیا۔ اس اثناء میں ہتھیاروں کی درآمدات میں 6,600 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ نے اپنے ہتھیاروں کی مجموعی برآمدات میں 17 فیصد کا اضافہ کیا ہےتصویر: Andreea Alexandru/AP/dpa/picture alliance

 ہتھیاروں کی روسی برآمدات میں کمی

دنیا بھر میں اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک امریکہ، فرانس،روس ، چین اور جرمنی تھے۔ فرانس روس کو پیچھے چھوڑ کر اب اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

روس کی برآمدات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ فرانسیسی فروخت میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019 ء تک 31 ممالک روس سے ہتھیار حاصل کر رہے تھے تاہم 2023ء تک، ان کی تعداد کم ہو کر 12 رہ گئی ہے۔ ان میں بھارت اور چین شامل ہیں، جنہوں نے روس کے ساتھ تیل اور گیس کی تجارت کو جاری رکھا ہوا ہے اور روسی ساز و سامان کے اب تک کے سب سے اہم خریدار ہیں۔

بھارت اور جرمنی میں بڑھتا دفاعی تعاون

02:39

This browser does not support the video element.

 

جرمن آبدوزوں کی برآمدات

2014 ء سے 2023ء  تک جرمنی کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جرمنی اب بھی اسلحہ برآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ جرمن اسلحے کے سب سے بڑے خریدار مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں۔

 

جرمن اسلحے کے سب سے بڑے خریدار مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیںتصویر: Robert Ghement/EPA/dpa/picture alliance

 

2014 ء سے 2023ء  تک کے عرصے کے دوران جرمنی سے اسلحے کی برآمدات میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی، تاہم (SIPRI) کی اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف پیٹر ویزیمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کمی کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پچھلے پانچ سال کے عرصے میں جرمنی کو بہت  بڑے بڑے آرڈرز ملے۔ خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی وجہ سے جرمن ہتھیاروں  کی تجارت غیر معمولی رہی۔ اس کے برعکس، سال 2023 ء اپنے طور پر جرمن ہتھیاروں کی صنعت کے لیے خاصا اچھا رہا۔ ویزیمن نے کہا کہ اس کا تعلق ''جزوی طور پر، یقیناً، یوکرین کو جانے والی فوجی امداد سے تھا، لیکن ساتھ ہی اس کا تعلق، سنگاپور کو آبدوزوں اور اسرائیل اور مصر دونوں کو فریگیٹس اور کارویٹس کی ترسیل سے بھی ہے۔‘‘

(کرسٹوف ہازلباخ) ک م/ ع ا

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں