1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرین کی خودمختاری پر کوئی مصالحت نہیں، جرمن چانسلر

جاوید اختر (ڈی ڈبلیو)
24 نومبر 2025

فریڈرش میرس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپ، یوکرین سے متعلق امریکہ کے متنازعہ منصوبے کے بعض نکات کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دک گئی جمعرات کی ڈیڈ لائن حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔

جرمن چانسلر میرس ڈی ڈبلیو کی نامہ نگارمائیکلا کیوفنر کو انٹرویو دیتے ہوئے
میرس نے کہا کہ یوکرین کی خودمختاری کا محفوظ رہنا انتہائی ضروری ہےتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

اتوار کے روز وفاقی جرمن چانسلر فریڈرِش میرس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپ جنیوا میں جاری مذاکرات کے دوران اپنی سکیورٹی ڈھانچے کو درپیش ’’گہرے خطرے‘‘ سے نبرد آزما ہے، جہاں ایک متنازعہ امریکی منصوبے پر بات چیت جاری ہے۔

میرس نے کہا کہ یوکرین کی خودمختاری کو کسی بھی سمجھوتے کا حصہ بنا کر قربان نہیں کیا جا سکتا، جسے واشنگٹن جمعرات تک طے کروانا چاہتا ہے۔

میرس نے کہا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں کچھ نکات ایسے ہیں جن پر اتفاق ممکن نہیں، اور ہم یوکرین کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں،تصویر: Henry Nicholls/empics/picture alliance

میرس نے یوکرین پلان کے بارے میں کیا کہا؟

جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے بعد ڈی ڈبلیو کی مائیکلا کیوفنر سے بات کرتے ہوئے میرس نے کہا کہ یورپ اس تجویز سے باخبر تھا اور انہوں نے تصدیق کی کہ جنوبی افریقہ روانگی سے پہلے ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو ہوئی تھی۔

میرس نے کہا، ''ہم گزشتہ جمعے سے اس 28 نکاتی منصوبے سے واقف ہیں۔ میں نے ملک چھوڑنے سے پہلے صدر ٹرمپ سے بات کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ ''ہم ان میں سے کچھ نکات پر اتفاق کر سکتے ہیں، لیکن کچھ ایسے ہیں جن پر اتفاق ممکن نہیں، اور یہ بھی بتایا کہ ہم یوکرین کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، اور اس ملک کی خودمختاری کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جنیوا میں ہونے والی بات چیت سنجیدہ ہے اور ان کی قیادت امریکہ، یوکرین اور یورپ کے قومی سلامتی کے مشیروں کے ہاتھ میں ہے۔ میرس نے کہا، ''ہم نہیں جانتے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن بات چیت میں یوکرین کی خودمختاری پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔‘‘

یوکرین کے یورپی اتحادیوں نے اس منصوبے کو مسترد کیا ہے، کیونکہ اس کے مطابق کییف کو روس کے حق میں اپنے بڑے علاقے چھوڑنے تھے، اپنی فوج کے سائز کو محدود کرنا تھا، اور دیگر اقدامات بھی شامل تھے۔

میرس نے کہا کہ یہ جنگ تقریباً چار سال سے یورپ کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم اپنے انفراسٹرکچر پر شدید حملے دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنی سائبر سکیورٹی پر شدید حملے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ پورے یورپی براعظم کے سیاسی نظام کے لیے ایک گہرا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس میں اتنی سنجیدگی سے شامل ہیں۔‘‘

انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے جمعرات تک تمام تفصیلات پر اتفاق کی ڈیڈ لائن حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ 28 کے 28 نکات پر اتفاق ہو سکے ۔‘‘

میرس نے کہا کہ روس یوکرین جنگ تقریباً چار سال سے یورپ کو غیر مستحکم کر رہی ہےتصویر: John Macdougall/REUTERS

میرس نے یورپ کے کردار کے بارے میں کیا کہا؟

میرس نے تصدیق کی کہ یورپ اس کے بجائے ایک ''چھوٹا قدم‘‘ تجویز کر رہا ہے اور اس بات پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے کہ کون سے نکات قابلِ عمل ہیں۔

انہوں نے کہا، ''ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کا کون سا حصہ یورپیوں، امریکیوں اور یوکرین کی ایک طرف اور روس کی دوسری طرف متفقہ طور پر طے ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے… ہم اب جمعرات تک ایک عبوری قدم نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں جانتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کم از کم ایک درمیانی نتیجہ جمعرات تک حاصل کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

میرس نے زور دیا کہ یورپ کے پاس اس منصوبے کے کلیدی حصوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا، ''روس کے اثاثے، جو برسلز میں موجود ہیں، انہیں امریکیوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابلِ تصور ہے۔ لہٰذا اگر یہ منصوبہ حقیقت بنتا ہے تو یورپیوں کی حمایت لازمی ہو گی۔‘‘

میرس نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ بھی ماسکو پر دباؤ ڈالنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا،''چین ایک کردار ادا کر سکتا ہے۔ چین روس پر اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈال سکتا ہے۔‘‘

جرمن چانسلر نے مزید کہا کہ انہوں نے چینی وزیراعظم کے ساتھ ایک ''بہت طویل ملاقات‘‘ کی، جب کہ وہ آئندہ سال ہونے والے اپنے سرکاری دورے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس دورے سے پہلے جنگ بندی ہو جائے گی۔

یوکرین کا جرمنی سے مزید اسلحے کا مطالبہ

02:11

This browser does not support the video element.

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں