1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین کی مزاحمت اور جنگ طویل ہونے کی امریکہ کی تنبیہ

8 مارچ 2022

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ یوکرین میں دنیا کو ''بہت طویل راستے'' کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس دوران کییف اور ماسکو کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور بھی تنازعہ ختم کرنے میں ناکام رہا۔ بات چیت آج بھی جاری رہے گی۔

Ukraine-Konflikt | Panzerabwehrhindernisse blockieren eine Straße in Saporischschja
تصویر: Smoliyenko Dmytro/Ukrinform/abaca/picture alliance

اقوام متحدہ نے پیر کو اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے ایک محفوظ راستے پر فوری طور پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ دنیا کو یوکرین میں اب ایک، ''بہت طویل اور کافی مشکل راستے'' کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بوریل نے کہا کہ یوکرین سے پناہ گزینوں کا سلسلہ جاری ہے اور جنگ سے بچنے کے لیے تقریباً پچاس لاکھ تک پناہ گزین یورپی یونین کے ملکوں کی جانب رخ کر سکتے ہیں۔

یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی نے روس پر انخلاء کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ روس کی جانب سے شیلنگ جاری ہے اس لیے اس نے دارالحکومت کییف، ماریوپول، سومی اور خارکیف جیسے محاصرہ زدہ شہروں سے عام شہریوں کے انخلاء کو روک دیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق یوکرین کو جب یہ پتہ چلا کہ شہریوں کے انخلا کے لیے جو بھی راستے تجویز کیے گئے ہیں وہ تقریبا ًسبھی یا تو روس یا پھر اس کے اتحادی بیلا روس کی جانب ہی نکلتے ہیں تو اس نے انخلا کی روسی تجویز کو مسترد کر دیا۔ تاہم روس نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اس نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔

پیر کے روز روس اور یوکرین کے وفود نے امن مذاکرات کے لیے تیسری بار ملاقات کی تاہم اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی اس لیے منگل کو بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ادھر ماسکو نے حملے ختم کرنے کے لیے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین اپنے آئین کو تبدیل کرے جس میں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ وہ نیٹو اور یورپی یونین میں شامل نہیں ہو گا۔

تصویر: Andrei Gorshkov/Sputnik/AP/picture alliance

روسی صدر کا پیغام

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے روسی صدر ولادمیر پوٹن نے اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ محاذ جنگ پر جو افراد لڑ رہے ہیں انہیں یہ ذمہ داری زبردستی نہیں سونپی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ جو فوجی عسکری خدمات انجام دے رہے ہیں وہ دشمنی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ہی وہ ایسا کریں گے... تفویض کردہ کام صرف پیشہ ور فوجی جوان ہی کر سکتے ہیں۔''

روسی فوجیوں اور ان کے افسران کی، ''مائیں، بیویاں، بہنیں، دلہنیں اور گرل فرینڈز اب جنگ کے حوالے سے تشویشات میں مبتلا ہیں '' اور صدر پوٹن کے پیغام کا مقصد انہیں خواتین کے خدشات کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں سمجھتا ہوں کہ آپ اپنے پیاروں کے بارے میں کس طرح فکر مند ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہماری پیاری خواتین، آپ اپنی حساس طبیعت، جذبہ ہمدردی اوردلی فیاضی کی بدولت دنیا کو مزید بہتر اور مہربان بناتی ہیں۔ آپ دلکشی، نرمی اور حیران کن اندرونی طاقت کا مجموعہ ہیں۔''

یوکرین کا روسی جنرل کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

ادھر یوکرین کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایک روسی جنرل خارکیف شہر کے قریب لڑائی میں مارا گیا ہے جس کی شناخت وٹالی جیر ا سیموف کے طورپر ہوئی ہے۔ یوکرین کے مطابق جیراسیموف نے شام اور چیچنیا میں جنگ لڑی تھی اور 2014 میں کرائمیا پر روسی قبضے میں بھی حصہ لیا تھا۔

نیدرلینڈ میں قائم تحقیقاتی صحافتی تنظیم بیلنگ کیٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹو گروزیو کا کہنا ہے کہ روسی ذرائع نے جیراسیموف کی موت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم روسی حکام کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں باضابطہ طور پر کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔

تصویر: Pavel Nemecek/CTK Photo/dpa/picture alliance

روس دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک

اس دوران دنیا کے بعض اور ممالک نے روس پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ پابندیوں پر نظر رکھنے والے ایک ویب سائٹ کیسٹلم اے  کے مطابق روس اب ایران اور شام کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ پابندی عائد کیے جانے والا ملک بن گیا ہے۔

اس ویب سائٹ کے مطابق، 22 فروری سے پہلے ہی روس کے خلاف 2,754 پابندیاں عائد کی جا چکی تھیں اور حملے کے بعد کے دنوں میں مزید 2,778 پابندیاں عائد کی گئیں ہیں اور اس طرح پابندیوں کی کل تعداد پانچ ہزار 532 ہو گئی ہے۔ ایران  پر کل پابندیوں کی تعداد 3,616 ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں