1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

یوکرین کی جنگ کے ذمہ دار میرکل اور سارکوزی، زیلنسکی

6 اپریل 2022

یوکرینی صدر  نے انگیلا میرکل اور نیکولا سارکوزی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں یوکرین کی موجودہ جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق ان رہنماؤں کا یوکرین سے متعلق موقف غلط تھا۔ دونوں لیڈروں نے اس تنقید کو رد کر دیا ہے۔

Rumänien | NATO-Gipfel in Bukarest - Angela Merkel und Nicolas Sarkozy
تصویر: Gerald Herbert/AP/picture alliance

یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں دو یورپی رہنماؤں کو روس اور یوکرین کے مابین جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ جرمنی کی سابقہ چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے سابق صدر نیکولا سارکوزی کی یوکرین کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ 2008 ء میں یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے خلاف ان یورپی رہنماؤں کی دلیل 'واضح غلطی‘ تھی اور ان کی پالیسیوں  نے روس کی حوصلہ افزائی کی۔ میرکل اور سارکوزی دونوں نے ان الزامات کو رد کر دیا ہے۔ زیلنسکی کے بقول ان کا ملک اب روسی جارحیت کا شکار ہو رہا ہے جو 2008 ء میں اُس وقت کی جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کے سیاسی فیصلوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔

بخارسٹ کانفرنس کا حوالہ

وولودیمیر زیلنسکی نے 2008 ء میں رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ میں منعقدہ ایک سربراہی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس کے دوران میرکل اور سارکوزی نے  مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کو مبینہ طور پر روکا تھا۔ زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کو نیٹو سے باہر رکھنا ایک 'واضح غلطی‘ تھی۔ انہوں نے اسے 'غلط کیلکولیشن یا حساب کتاب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے میرکل کی 16 سالہ چانسلرشپ کی میراث پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ زیلنسکی نے کہا،''میں انگیلا میرکل اور نیکولا سارکوزی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بُوچہ کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ 14 سالوں میں روس کو دی جانے والی رعایتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے کیا ہوا۔‘‘ یوکرینی صدر نے حالیہ دنوں میں منظرعام پرآنے والی ان بھیانک تصاویر کا ذکرکیا جس میں بوُچہ کی سڑکوں پر مردہ شہریوں کی لاشیں جا بجا پڑی دکھائی دیں۔ ان میں سے کچھ لاشیں ایسی بھی نظرآ رہی ہیں جن کے ہاتھ  ان کی پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے ہیں۔

سارکوزی اور میرکل پر تنقید

یوکرین کی 2008 ء کی درخواست کو مبینہ طورپر سارکوزی اورمیرکل نے بلاک کردیا تھا، ان دونوں کا موقف تھا کہ دیگر عوامل کے علاوہ یوکرین انتہائی غیر مستحکم سیاسی صورتحال سے دو چار ہے اور ان حالات میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اس کا شامل ہونا  جلد بازی ہوگی۔ 2008 ء کی بخارسٹ منعقدہ سمٹ کے اختتام کو پہنچتے ہی ایک حتمی اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کے لیے کوئی حقیقی ٹائم لائن اور ایک ٹھوس ایکشن پلان کی پیشکش روک دی گئی تھی۔  

میرکل اور سارکوزی کا رد عمل

یوکرینی صدر زیلنسکی کے تنقید اور الزامات سے بھرے بیان کا گرچہ سابق فرانسیسی صدر نیکولا سارکوزی کے دفتر کی طرف سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا البتہ انگیلا میرکل نے فوری طور پر ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ''بخارسٹ منعقدہ 2008 ء کی نیٹو سمٹ کے دوران اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔‘‘ سابق جرمن چانسلر نے بیان میں مزید کہا ،'' یوکرین میں بُوچہ اور دیگر مقامات پر سامنے آنے والے مظالم کے پیش نظر، ہم حکومت اور عالمی برادری کی طرف سے یوکرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور روس کی بربریت اور یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے تمام تر کوششیں میں ساتھ ہیں۔‘‘

میرکل کا ایمج

انگیلا میرکل  نے 16 سال جرمنی کی چانسلر رہنے کے بعد گزشتہ برس اپنی چانسلرشپ کی چوتھی اور آخری مدت مکمل کر تے ہی سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔ اپنے دور میں وہ یورپ کی طاقتور ترین لیڈر مانی جاتی تھیں۔ انہیں یورپی اتحاد اور استحکام کو یقینی بنانے والی شخصیت مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن بہت سے انسانوں کی نگاہ میں یوکرین کی جنگ نے ان کی قیادت کی ممکنہ خامیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ میرکل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ماسکو کے ساتھ کشیدہ حالات میں بھی امن پر اتفاق کی پالیسی نے جرمنی اور یورپ کو کمزور بنا دیا۔

اس ضمن میں ایک پہلو مزید واضح ہو کر سامنے آ رہا ہے اور وہ یہ کہ جرمنی کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے روسی تیل اور گیس پر اس کے انحصار کا۔ 2014 ء میں جرمنی نے اپنی 36 فیصد گیس ماسکو سے درآمد کی تھی لیکن جب 24 فروری 2022 ء کو روس نے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تو اُس وقت جرمنی 55 فیصد گیس روس سے درآمد کر رہا تھا۔ موجودہ صورتحال نے جرمنی کو مشکل دائرے میں گھیر لیا ہے۔ برلن کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی طرف سے ماسکو پر توانائی کی مکمل پابندی عائد کرنے سے قاصر ہے۔

ک م/ ب ج ) اے ایف پی،ڈی پی اے( 

 

    

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں