یوکرین کے لیے جرمنی کا صرف لفظی اظہارِ یکجہتی ناکافی، تبصرہ
18 مارچ 2022جرمن پارلیمان (بنڈس ٹاگ) سے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے آن لائن تقریر کرتے ہوئے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جس نکتے پر زور دیا اس کا تعلق الفاظ کے قابل اعتبار ہونے سے ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے سبھی اراکینِ پارلیمان پر جنگ کی خوفناکی کو واضح کیا۔ انہوں نے اس تقریر میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کیے گئے عہد 'دوبارہ نہیں‘ کو بھی دہرایا۔
یوکرین میں روسی حملے کے بعد سے شروع خوفناک جنگ کو تین ہفتے ہو گئے ہیں۔ ان تین ہفتوں کے ہر دن یوکرین نے تباہی اور مصائب کو برداشت کیا اور ابھی ان کے ختم ہونے کا امکان بھی نہیں ہے۔
کیا یوکرین جنگ ختم کرنے کا یہ واحد راستہ ہے؟
یوکرینی صدر نے اپنی تقریر میں جرمنوں کو متاثرکن انداز میں آئینہ دکھاتے ہوئے واضح کیا کہ جرمنی آج بھی ان کے ساتھ کاروباری تعلق استوار کیے ہوئے ہے، جنہوں نے ان کے ملک پر بم برسائے۔ جہاں روس سے جرمنی کو تیل اور گیس کی فراہمی جاری ہے وہاں جرمن کمپنیاں مالی منفعت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئی ہیں۔
کاروبار اور اقدار جدا نہیں ہو سکتے
ڈی ڈبلیو کی تجزیہ کار نے واضح کیا کہ اقتصادی نقصان کا حجم کبھی بھی امداد کی رضامندی سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ جرمنی سے یوکرینی صدر کی تقریر کے بعد یہ تلخ سوال اٹھتا ہے کہ یہ ملک کہاں کھڑا ہے؟
اس تقریر میں صدر زیلنسکی نے گِلہ کیا کہ موجودہ جنگ کے شروع ہونے سے بہت پہلے سے جرمنی نے یوکرینی امداد کی پکار پر بھی کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اس جنگ میں جرمن ریسپانس یقینی طور پر سست تھا اور اب برلن حکومت کے لیے فوری طور پر اگلے اقدامات کی درجہ بندی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
اچھا وہی ہے جو اچھے عمل ہر مبنی ہو
جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی ایام کے بعد چانسلر اولاف شولس کا کہنا تھا کہ تبدیلی کا موڑ آن پہنچا ہے۔ پھر انہوں نے اپنی پالیسی کو ایک نیا رخ دیا۔ یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی شروع کر دی گئی۔ جرمن بجٹ میں ملکی فوج کو جدید خطوط پر کھڑا کرنے کے لیے رقم بھی مختص کر دی اور روس پر سخت اقتصادی پابندیوں کا نفاذ کر دیا گیا۔ یہ اقدامات مناسب، بروقت اور درست سمت میں قرار دیے جا سکتے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملہ، کیا ’سرد جنگ دوم‘ کا آغاز ہو چکا ہے؟
جرمن پارلیمان سے تقریر کرتے ہوئے صدر زیلنسکی نے اس امر پر زور دیا کہ جرمنی کو ابھی بھی کچھ زیادہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ اقدام بابت انہوں نے زیادہ تفصیل بیان نہیں کی۔
اس معاملے پر مزید بحث کرنے کے حوالے سے چانسلر سمیت ان کی حامی حکمران سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمینٹیرین اور بقیہ کی جانب سے کوئی ایک کلمہ بھی سامنے نہیں آیا۔ صرف ایک بات نمایاں تھی اور وہ تھی پارلیمنٹ کی جانب سے صدر زیلنسکی کا شاندار خیرمقدم لیکن پھر ایوان اپنے معمول کی کارروائی کی جانب بڑھ گی۔
کیا یوکرینی جنگ ایک نئی عرب بہار کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے؟
جرمن مصنف اور شاعر ایرچ کیسٹر نے لکھا تھا، '' کچھ بھی اچھا نہیں جب تک کوئی اچھا عمل نا کیا جائے‘‘۔ چانسلر شولس جنگ کے آغاز کے بعد سے کچھ اچھا کرنے کی ہمت کر چکے ہیں۔ ایسا کرنے میں انہیں چند ایام لگے لیکن اب وہ اس پر قائم ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ دوبارہ ان کا ردعمل جلد ہونے کے علاوہ بروقت ہو گا۔
تبصرہ نگارِ، کیتھرین کرول (ع ح / اا)