1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوگنڈا: افریقہ کا یہ موتی اپنی چمک دمک کھو چکا ہے

Adnan Ishaq9 اکتوبر 2012

یوگنڈا کو نو اکتوبر 1962ء کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی۔ آج اس آزادی کو پچاس سال ہو گئے ہیں۔ اس نصف صدی میں یوگنڈا میں کئی تبدیلیاں آئیں لیکن اس دوران ملک میں جمہوری اقدار صحیح طور پر پروان نہیں چڑھ سکیں۔

تصویر: Getty Images

یوگنڈا کا شمار براعظم افریقہ کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سیاسی استحکام پایا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے باوجود اس ملک میں اقتصادی ترقی کی رفتار مسلسل پانچ سے سات فیصد تک جا رہی ہے۔ ساتھ ہی صومالیہ میں تعینات امن دستوں میں سب سے زیادہ فوجی بھی یوگنڈا کے ہی ہیں۔ مشہور برطانوی سیاستدان ونسٹن چرچل نے یوگنڈا کو افریقہ کا موتی قرار دیا تھا۔ لیکن اب یہ موتی اپنی چمک دمک کھو چکا ہے۔ عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے ظالمانہ اَدوارکے بعد اب یوری موسوینی 26 برسوں سے حکومت سے چپکے ہوئے ہیں۔

ونسٹن چرچل نے یوگنڈا کو افریقہ کا موتی قرار دیا تھاتصویر: dapd

یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں جرمنی کی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی سارا ٹانگن اس ساری سیاسی صورتحال پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یوگنڈا کا سیاسی نظام جمہوری نہیں ہے بلکہ اس ملک میں آمرانہ جمہوریت ہے۔ پولیس اور فوج عوام کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔ سارا ٹانگن کے بقول یہ ادارے انتہائی بدعنوان ہیں اور عوام ان سے شدید نالاں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی کئی نیم فوجی تنظیمیں ہیں، جو کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتیں۔

یوگنڈا میں گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بارے میں بین الاقوامی مبصرین کا کہنا تھا کہ انتخابی عمل آزاد تو ضرور تھا مگر شفاف نہیں تھا۔ حکومتی جماعت این آر ایم نے انتخابی مہم سرکاری خزانے سے چلائی تھی۔

یوری موسوینی نے 1986ء میں حلف برداری کے دوران کہا تھا کہ افریقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں حکمران طویل عرصے تک اقتدار میں رہتے ہیں اور اس دوران بدعنوانی، لاقانونیت اور اقربا پروری پروان چڑھتی ہے۔ اُس موقع پر جب ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ بھی ایسا ہی کریں گے؟ تو اس پر موسوینی نے جامع انداز میں جواب دیا۔ ’’بات جدوجہد کی ہے۔ میں1971ء سے جنگ لڑ رہا ہوں۔ میں سولہ سال سے لڑ رہا ہوں، آپ مجھ سے کیا امید کر رہے ہیں کہ میں اپنی جدوجہد درمیان میں ہی ختم کر دوں۔ ہم اب جنگلوں میں نہیں بلکہ حکومت میں لڑ رہے ہیں۔ میں اقتدار کی نہیں بلکہ جدوجہد کی بات کر رہا ہوں‘‘۔

عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے ظالمانہ اَدوار کے بعد اب یوری موسوینی حکومت سے چپکے ہوئے ہیں۔تصویر: Getty Images

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران یوگنڈا میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انتقال اقتدار پرامن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہو۔ یوگنڈا کی زیادہ تر آبادی بیس سال سے کم عمر کی ہے۔ ان نوجوانوں نے یوری موسوینی کے علاوہ ابھی تک کسی اور کو صدر کے طور پر دیکھا ہی نہیں ہے۔ اب نوجوان نسل اپنے جمہوری حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ نوجوان رکن اسمبلی حکومت پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور یہی لوگ افریقہ کے اس موتی کے لیے امید کی کرن بھی ہیں۔

A.Schmidt / ai / aa

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں