1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوگنڈا

یوگنڈا میں کچرے کے ڈھیر تلے دبنے سے 18 افراد ہلاک

11 اگست 2024

دارالحکومت کمپالا میں ڈھلوان کی شکل اختیار کیے ہوئے کچرے کا یہ ڈھیر مبینہ طور پر شدید بارشوں کے نتیجے میں منہدم ہوا۔

Erdrutsch in Uganda
تصویر: Simon Tumwine/XinHua/dpa/picture alliance

دارالحکومت کمپالا میں ڈھلوان کی شکل اختیار کیے ہوئے کچرے کا یہ ڈھیر مبینہ طور پر شدید بارشوں کے نتیجے میں منہدم ہوا۔حادثے میں کم ازکم  ڈیڑھ درجن ہلاکتوں اور ایک درجن سے زائد افراد کے ذخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

امدادی ادارے ریڈ کراس کے مطابق یوگنڈا کے دارالحکومت میں کچرے کا ایک ڈھیر منہدم ہونے کے بعد اس کے نیچے دب کر اب تک کم از کم 18 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس حادثے کے نتیجے میں کم از کم چودہ دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ منہدم ہونے والا کچرے کا ڈھیر، کیٹیزی لینڈ فل میں جمع تھا، جہاں دارالحکومت کمپالا کے زیادہ تر کچرے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

یوگنڈا، امدادی کارکن کچرے کے ڈھیر تلے دبی لاشوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔تصویر: Simon Tumwine/XinHua/dpa/picture alliance

 کمپالا کیپٹل سٹی اتھارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ مرنے والوں میں کم از کم دو بچے بھی شامل ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ کچرے کا ڈھیر منہدم ہونے کی وجہ حالیہ شدید بارشیں ہیں۔ حکام نے ابھی تک اس حادثے کی حتمی تفصیلات کا جائزہ پیش نہیں کیا تاہم سٹی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ اس لینڈ فل میں کوڑے کو غلط طریقے سے ایک ہی جگہ اکٹھے کر دیے جانے کے باعث پیش آیا۔

یوگنڈا میں ریڈ کراس کی ترجمان آئرین ناکاسیتا نے کہا کہ آج اتوار کے روز جائے وقوعہ سے مزید لاشیں نکالے جانے کے بعد ہلاکتوں کی کل تعداد اب تک 18 ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا، ''تلاش کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اور شدید بارشوں اور کچرا گیلا ہوجانے کی وجہ سے اس کی کھدائی سست روی کا شکار ہے۔‘‘

یوگنڈا کے دارالحکومت میں وہ لینڈ فل سائٹ جہاں یہ افسوس ناک واقع پیش آیا۔ تصویر: Simon Tumwine/XinHua/dpa/picture alliance

 کیٹیزی لینڈ فل شہر کے ایک نسبتاﹰ غریب علاقے میں قائم کیا۔ کچرے کا یہ ڈھیر منہدم ہونے سے پہلے ایک کھڑی ڈھلوان کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے اور خواتین وہاں کچرا چننے آتے ہیں تاکہ اسے بیچ کر کچھ رقم حاصل کر سکیں اور اس کے آس پاس کچھ گھر بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔

ر ب/ ش خ (اے پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں