یو این کوٹہ سسٹم کے تحت مہاجرین قبول نہیں کریں گے، ڈنمارک
4 اکتوبر 2018
ڈنمارک نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ریفیوجی کوٹہ نظام کے تحت سن 2018 میں کسی مہاجر کو قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بجائے کوپن ہیگن حکومت حال ہی میں ڈنمارک پہنچنے والے تارکین وطن کے سماجی انضمام کی جانب توجہ مرکوز کرے گی۔
اشتہار
اسکینڈے نیویا خطے کے ملک ڈنمارک نے سن دو ہزار سولہ سے اقوام متحدہ کے ریفیوجی کوٹہ سسٹم میں شرکت معطل کر رکھی ہے اور ابھی تک دوبارہ واپسی اختیار نہیں کی ہے۔
مہاجرت کے بارے میں سخت موقف کی حامل ڈنمارک کی وزیر برائے امیگریشن انگر اسٹوژ برگ نے ایک بیان میں کہا،’’ ہم اب بھی اُن مہاجرین کو ڈینش معاشرے میں ضم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جو حالیہ چند سالوں میں ڈنمارک آئے ہیں۔‘‘
یو این کوٹہ ریفیوجی سسٹم کے تحت ایسے مہاجرین کی کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کی کوشش کی جاتی ہے جنہیں اپنے داخلے سے پہلے ملک میں کسی وجہ سے آباد کرنا ممکن نہ ہو۔
گزشتہ برس بھی ڈنمارک کی مہاجرین مخالف دائیں بازو کی حکومت نے اقوام متحدہ کے کوٹہ سسٹم کے تحت مزید مہاجرین قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت کئی ممالک ایک کوٹہ سسٹم کے ذریعے سالانہ بنیادوں پر مہاجرین کو پناہ دیتے ہیں۔
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد ڈنمارک نے بیس ہزار تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا تھا۔ یہ تعداد جرمنی اور سویڈن جیسے ہمسایہ ممالک کی نسبت انتہائی کم ہے۔ جرمنی میں اس عرصے کے دوران ایک ملین سے بھی زائد مہاجرین آئے تھے۔
سماجی انضمام اور مہاجرین کے امور کی نگران ڈینش وزارت کے مطابق سن 2017 میں ملک میں 3،500 مہاجرین کا اندراج کیا گیا تھا جو سن 2008 کے بعد سے کم ترین تعداد ہے۔ رواں برس کے پہلے دس ماہ میں پناہ کی دو ہزار چھ سو کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ڈنمارک میں سن 2017 کے اواخر میں منظورکیے جانے والے ایک امیگریشن قانون کے مطابق اب یہ امیگریشن منسٹری کی صوابدید پر ہے کہ وہ کتنے مہاجرین کو قبول کرے گی۔
ص ح / ع ا / نیوز ایجنسی
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔