یو اے ای پر میزائلوں سے حملے کر سکتے ہیں، حوثی باغی
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
14 ستمبر 2017
یمن کے حوثی باغیوں کے رہنما نے متحدہ عرب امارات اور بحیرہ احمر میں تیل بردار سعودی بحری جہازوں پر میزائلوں سے حملے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دوسری جانب یمن میں القاعدہ کے خلاف جاری آپریشن میں سعودی پائلٹ ہلاک ہو گیا۔
اشتہار
حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے متحدہ عرب امارات اور بحیرہ احمر میں تیل بردار سعودی بحری ٹینکروں پر میزائل داغنے کی دھمکی دی ہے۔
باغیوں کے زیرانتظام ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں ایران نواز حوثیوں کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ ان کے جنگجو ایسے میزائل حاصل کر چکے ہیں جن کی مدد سے متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات بھی حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار سعودی قیادت میں بنائے گئے اس عسکری اتحاد کا اہم حصہ ہے۔ عبدالمالک کے مطابق، ’’یو اے ای میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب یہ ملک محفوظ نہیں ہے۔‘‘
باغی گروہ نے بحیرہ احمر میں موجود تیل بردار سعودی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔
#بثینة_عین_الانسانیة: یمنی بچی کی تصویر وائرل
00:52
دوسری جانب آج چودہ ستمبر بروز جمعرات سعودی عرب کی رائل ایئر فورس کا ایک پائلٹ القاعدہ کے خلاف کیے جانے والی ایک عسکری کارروائی کے دوران ہلاک ہو گیا۔
روئٹرز کے مطابق سعودی رائل ایئر فورس کا کہنا ہے کہ ان کا جنگی طیارہ ’فنی خرابی‘ کے باعث گر کر تباہ ہوا، جس دوران اس میں سوار پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا۔
سعودی عسکری اتحاد نے مارچ 2015ء سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ اس دوران ساڑھے آٹھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے، کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، جب کہ یمنی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اسی دوران رواں برس یمن میں ہیضے کی وبا سے ساڑھے چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، جس کی بنیادی وجہ پینے کی صاف پانی کی عدم دستیابی تھی۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔