1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یو پی: ادتیاناتھ حکومت، ہندتوا اور سیکولر بھارت کے خلاف جنگ

مقبول ملک
27 مارچ 2017

بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بار بار مسلم مخالف تقریریں کرنے والے شعلہ بیان ہندو قوم پسند سیاستدان یوگی ادتیاناتھ کی حکومت کو متعدد ماہرین ’ہندتوا کے ایجنڈے کی طرف سفر‘ قرار دے رہے ہیں۔

Uttar Pradesh Chief Minister Yogi Adityanath mit Premier Minister Narendra Modi Indien
اتر پردیش کے نئے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ اپنی حلف برداری کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھتصویر: UNI

اتر پردیش کے گاؤں بشارا سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پیر ستائیس مارچ کے روز اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں لکھا ہے کہ جب ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یوگی ادتیاناتھ کو 220 ملین کی آبادی والی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تو کئی تجزیہ نگاروں کو یہ سوچنے میں دیر نہ لگی کہ اب بی جے پی اتر پردیش میں بالخصوص اور بھارت میں بالعموم زیادہ سخت گیر مذہب پسندانہ رویہ اپنانے کی کوشش کرے گی۔

ایسا ہوا بھی۔ اتر پردیش کے گاؤں بشارا میں، جہاں 2015ء میں ایک مسلمان باشندے کے اس کے ہندو ہمسایوں کے ہاتھوں قتل پر پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا تھا، مقامی ہندوؤں نے یوگی ادتیاناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے پر رات بھر خوشیان منائیں اور ایک دوسرے پر قوم پرست ہندوؤں کی علامت سمجھا جانے والا زعفرانی رنگ پھینکتے رہے۔

فیس بُک پر ادتیاناتھ کی ’قابل اعتراض‘ تصویر، ایک شخص گرفتار

یو پی میں نئی حکومت، مودی کا ’ہندو بھارت‘ کی طرف بڑا قدم؟

اتر پردیش کی آبادی کا قریب 20 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، یعنی وہاں ہر پانچواں شہری مسلمان ہے۔ یوگی ادتیاناتھ کے ریاستی وزیر اعلیٰ بننے پر خوشیاں اس لیے منائی گئیں کہ یہ 44 سالہ پنڈت سیاستدان ہندو ووٹروں میں انتہائی مقبول ہے۔ لیکن جو بات باعث تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ یوگی ادتیاناتھ کی سیاسی سوچ پر ہندتوا کا چھاپ انتہائی گہری ہے اور وہ صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ کئی دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف بھی بہت اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے ہیں۔

بشارا نامی گاؤں میں 50 سالہ مسلمان محمد اخلاق کو ایک گائے کو ذبح کرنے کے شبے میں جن بہت سے ہندوؤں نے قتل کر دیا تھا، ان میں سے ابھی تک 14 مشتبہ ملزمان زیر حراست ہیں۔ انہی میں سے ایک ہندو ملزم کی والدہ کرن رانا کہتی ہیں، ’’وہ (یوگی ادتیاناتھ) ہمارے لیے بھگوان جیسے ہیں۔ وہ ہمارے بچوں کو رہائی دلوائیں گے۔‘‘

یو پی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انتخاب کے بعد یوگی ادتیاناتھ کو مٹھائی کھلائی جا رہی ہےتصویر: Reuters/P. Kumar

نریندر مودی کی پارٹی کو اتر پردیش کے حالیہ ریاستی الیکشن میں زبردست کامیابی ملی تھی۔ مودی 2014ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے ایسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں، جن کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی بی جے پی کے ہندو قوم پرستانہ ایجنڈے پر زیادہ عمل درآمد نہیں کر رہے۔ لیکن ہندو اکثریتی بھارت میں، جہاں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں، اتر پردیش میں یوگی ادتیاناتھ کا سربراہ حکومت بنایا جانا نہ صرف مودی کی ان ظاہری کوششوں کی نفی کرتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے یہ خوف بھی پیدا ہو چکا ہے کہ بی جے پی ایک ایسے معاشرے میں عملاﹰ ہندتوا کی سوچ کو رواج دے رہی ہے، جو آئینی طور پر ایک سیکولر معاشرہ ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ متنازعہ ہندو رہنما ادتیاناتھ ہوں گے

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اتر پردیش کے ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں یوگی ادتیاناتھ کا حکومتی سربراہ ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آئندہ وہاں ہندتوا کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے زیادہ بھرپور انداز میں ایک ایسے معاشرے کے قیام کی کوشش کی جائے گی، جو ’مسلمانوں اور مسیحیوں جیسی ہر قسم کی مذہبی اقلیتوں سے پاک ہو‘۔ ہندتوا کے حامیوں کے مطابق بھارت میں مسلم اور مسیحی اقلیتیں بیرونی حکمرانوں کی بھارت پر بار بار کی اس ’یلغار‘ کا نتیجہ ہیں، جس کا سلسلہ آٹھویں صدی عیسوی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔

بھارتی روزنامے دی ٹیلیگراف کے قومی امور کے ایڈیٹر منینی چیٹرجی کے بقول یہ سیاسی سوچ ’بھارت کی سیکولر ریاست کے خلاف ایک طرح کا اعلان جنگ‘ ہے۔ منینی چیٹرجی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو بڑی کامیابی ملی ہے، وہ اسے پورے بھارت میں اپنے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کے طور پر دیکھ رہی ہے کیونکہ یو پی کی سیاست کو اس کی 22 کروڑ آبادی کی وجہ سے بھارت میں قومی سطح پر سیاسی رجحانات کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔

بائیس کروڑ کی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں تقریباﹰ ہر پانچواں شہری مسلمان ہےتصویر: DW/S.Waheed

جہاں تک بشارا گاؤں کا تعلق ہے تو یہ ملکی دارالحکومت نئی دہلی سے صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن وہاں مقامی آبادی کو بجلی صرف شام سات بجے سے لے کر اگلی صبح تک ہی دستیاب ہوتی ہے۔ ایک عام بھارتی گاؤں کی طرح وہاں بھی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور مقامی لوگوں کے لیے روزگار کی شدید کمی ہے۔

اس گاؤں کی ہندو رہائشی کرن رانا کے مطابق انہیں توقع ہے کہ ایک پنڈت سے سیاستدان بننے والے ادتیاناتھ کے دور میں اس ریاست میں ترقی ہو گی۔ لیکن کرن رانا کے بہنوئی راجیو رانا کا کہنا ہے کہ ادتیاناتھ کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہندوؤں کے لیے مقدس گائیں اس ریاست میں پوری طرح محفوط رہیں۔

دوسری طرف اس گاؤں کے مسلمانوں میں محمد اخلاق کے قتل کے بعد سے خوف پایا جاتا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کشیدگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی گاؤں کے ایک مسلم رہائشی محمد اکبر نے بتایا کہ وہ بشارا کو چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ شمال کی طرف ایک پہاڑی علاقے میں منتقل ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

محمد اکبر نے بتایا کہ کئی مقامی ہندو مسلمانوں سے بات تک نہیں کرتے۔ ’’بچے تک ہمیں طعنے دیتے ہیں، ہم محفوظ نہیں ہیں۔‘‘ یوگی ادتیاناتھ نے ریاستی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اپنے خطاب میں عوام سے جو پہلا وعدہ کیا تھا، وہ یہ تھا کہ یو پی میں مذبحہ خانوں پر کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔ یہ مذبحہ خانے روایتی طور پر مسلمان ہی چلاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں