یو پی میں نئی حکومت، مودی کا ’ہندو بھارت‘ کی طرف بڑا قدم؟
19 مارچ 2017ریاستی دار الحکومت لکھنؤ میں اتوار انیس مارچ کو یوگی ادتیاناتھ جب اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے تو اس تقریب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک تھے۔ چوالیس سالہ ادتیاناتھ ضلع گورکھپور سے سن 1998سے لے کر اب تک پانچ مرتبہ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یا لوک سبھا کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔
لیکن ان کے وزیر اعلیٰ بننے پر اتر پردیش کے مسلمان بے چینی کا شکار ہیں۔ اس ریاست کی 220 ملیں میں سے بیس فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو قوم پرست اور مسلم مخالف بیانیہ رکھنے کے سبب ادتیاناتھ کثیر الثقافتی ملک بھارت میں ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
اتر پردیش کی ریاست ملکی سیاست میں ہمیشہ سے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ریاستی انتخابات کو آئندہ ہونے والے ملکی انتخابات کے تناظر میں ایک رجحان ساز حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کی جانب سے ہندو مذہب اور ثقافت کے احیا کے حامی قوم پرست سیاست دان یوگی ادتیاناتھ کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنایا جانا بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ادتیاناتھ کا پس منظر
یوگی ادتیاناتھ کا اصلی نام اجے سنگھ بشٹ ہے اور وہ پانچ جون 1972ء کو اترآکھنڈ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ اترآکھنڈ تب اتر پردیش ریاست ہی کا حصہ تھا۔ انہوں نے مقامی یونیورسٹی سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔
ابتدائی عمر سے مذہب سے لگاؤ رکھنے کے سبب اکیس برس کی عمر میں انہوں نے گورکھ ناتھ مندر میں مہانت اویدیاناتھ مہاراج کو اپنا گرو بنا کر ان سے مذہبی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ سن 2014 میں اپنے گرو کے انتقال کے بعد ادتیاناتھ اسی مندر کے مہانت یا بڑے پروہت بن گئے تھے۔ نیپال کی سرحد پر واقع گورکھ ناتھ مندر اور اس سے منسلک مذہبی تعلیم کا ادارہ بھارت میں کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ہندو مت میں عقیدت کی نظر سے دیکھے جانے والے یوگی بابا گورکھ ناتھ کی جسمانی باقیات بھی اسی مندر میں موجود ہیں۔
ہندو مذہب اور ثقافت کے احیا کی خواہش
ادتیاناتھ کے گرو مہانت اویدیاناتھ مہاراج نے سن 1992 میں سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کو منہدم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ادتیاناتھ بھی مہانت بننے کے بعد اپنے گرو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہندو مذہب اور ثقافت کا احیا گورکھ ناتھ مندر کے مہانتوں کے ایجنڈے پر ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ یوگی ادتیاناتھ بھی اس مقصد پر کاربند ہیں اور وہ اپنی تقریروں میں ہمیشہ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہندو اکثریت والے بھارت کو مسلم اقلیت سے خطرات لاحق ہیں۔
وہ ہندو آبادی، خاص طور پر نوجوان ہندو نسل کو ’لَو جہاد‘ سے باخبر رہنے کی تلقین کر چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو عشق کا فریب دے کر دراصل انہیں مسلمان بنانے کے منصوبہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی آبادی کے باعث جلد ہی بھارت میں مسلمان اکثریت بن جائیں گے۔
صرف مسلمان ہی نہیں وہ بھارتی مسیحیوں کے خلاف بھی کئی بیانات دے چکے ہیں۔ ’گھر واپسی‘ کے عنوان سے انہوں نے ایک تحریک شروع کی جس کے تحت ایک ہزار سے زائد بھارتی مسیحیوں کو دوبارہ ہندو مذہب میں داخل کیا گیا۔
شعلہ بیان مقرر ہونے کے باعث بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ انتخابی مہم میں ان کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ تاہم مخالفین ان پر قوم پرستی اور نسل پرستی پھیلانے اور ہندو نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں جنہیں ادتیاناتھ مسترد کرتے ہیں۔
بھارت میں اور بھارت سے باہر ادتیاناتھ کو جتنا بھی متنازعہ سمجھا جائے لیکن اپنے علاقے میں وہ ایک ہیرو مانے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہیرو جس کے پاس مسائل کا حل موجود ہے اور جس نے اپنے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں پر توجہ بھی دی ہے۔