1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتیورپ

یکم جنوری سے بلغاریہ اور رومانیہ بھی شینگن زون کے مکمل رکن

12 دسمبر 2024

یورپی یونین کے رکن ممالک نے اگلے سال یکم جنوری سے بلغاریہ اور رومانیہ کے لیے بھی اس بلاک کے شینگن معاہدے کے مکمل رکنیت کی منظوری دے دی ہے۔ یہ دونوں ممالک یونین کے انتیس رکنی آزاد سرحدی معاہدے کے اب تک جزوی رکن ہیں۔

رومانیہ میں بخاریسٹ ایئر پورٹ (تصویر) پر بارڈر فری شینگن ٹرانسفر کی سہولیات پہلے ہی سے مروجہ ہیں
رومانیہ میں بخاریسٹ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر شینگن زون سے یا وہاں تک آمد و رفت کے لیے سرحدی نگرانی کے بغیر سفری سہولیات پہلے ہی سے مروجہ ہیںتصویر: Cristian Cristel/Xinhua/picture alliance

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے جمعرات 12 دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق قومی سرحدوں پر نگرانی کے بغیر اور عام افراد کی آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دینے والے شینگن زون میں شامل ممالک کی تعداد اس وقت 29 ہے۔

انتیس شینگن ممالک کون کون سے؟

یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے میں اب تک شامل 29 میں سے 25 ممالک ایسے ہیں، جو 27 رکنی یوری یونین کے ارکان بھی ہیں۔ شینگن زون کی رکن باقی ماندہ چار ریاستیں سوئٹزرلینڈ، ناروے، آئس لینڈ اور لیختن شٹائن ہیں، جو یورپی یونین میں تو شامل نہیں مگر شینگن زون کا حصہ ہیں۔

جرمنی نے مہاجرت کنٹرول کرنے کے لیے سرحدوں پر سختی کردی

یورپی یونین کا شینگن معاہدہ لکسمبرگ میں شینگن نامی قصبے میں طے پایا تھاتصویر: Winfried Rothermel/picture alliance

یونین کے 1985ء میں قائم کیے جانے والے شینگن زون کی رکن 29 ریاستوں میں مشرقی یورپی ممالک بلغاریہ اور رومانیہ اب بھی شامل تو ہیں، مگر وہ اس معاہدے کے جزوی رکن ہیں۔

اس بارے میں نئی پیش رفت یونین کی رکن ریاستوں کی طرف سے کیا جانے والا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ یکم جنوری 2025ء سے یہ دونوں مشرقی یورپی ملک بھی شینگن زون کے مکمل رکن بن جائیں گے۔

ہنگری کی طرف سے کیا جانے والا اعلان

یورپی یونین کی صدارت کرنے والا ملک ہر چھ ماہ بعد بدل جاتا ہے۔ اس وقت یہ صدارت ہنگری کے پاس ہے۔ ہنگری کے وزیر داخلہ سانڈور پنٹر نے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کی کونسل کے سربراہ کے طور پر اعلان کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک تاریخی لمحہ ہو گا کہ ہم شینگن زون میں بلغاریہ اور رومانیہ کا بھی مکمل رکن ریاستوں کے طور پر خیر مقدم کر سکیں گے۔‘‘

آسان ویزا: ہنگری کے فیصلے سے یورپ میں جاسوسی بڑھنے کا خدشہ

شینگن زون کے کسی بھی رکن ملک کی طرف سے جاری کیا جانے والا ویزا عام طور پر سبھی شینگن ممالک میں جانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہےتصویر: Nikolai Sorokin/Zoonar/picture alliance

کوسووو کے شہریوں کے لیے اب شینگن زون کا ویزا فری سفر ممکن

یہ دونوں ملک 2007ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے اور ان کی اس بلاک کے آزاد سرحدی معاہدے میں جزوی شمولیت اس سال مارچ میں اس وقت عمل میں آئی تھی، جب وہاں سے دیگر شینگن ممالک تک آمد و رفت کے لیے فضائی اور بحری راستوں سے سفر سے پہلے بارڈر کنٹرول ختم کر دیا گیا تھا۔

زمینی راستے سے سفر کے وقت تاہم ان ممالک اور باقی ماندہ شینگن زون کے درمیان سرحدی نگرانی کا عمل اب بھی جاری ہے۔

اس کی وجہ آسٹریا کی طرف سے ماضی میں ظاہر کی گئی یہ تشویش بنی تھی کہ سرحدی نگرانی مکمل طور پر ختم کیے جانے سے ان دونوں ملکوں سے باقی رکن ریاستوں میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا۔

پرتگال کا گولڈن ویزا کے خاتمے کا اقدام کس حد تک مثبت ہے؟

شینگن ممالک میں کسی بھی ذریعے سے داخلی سفر کرنا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کوئی شہری اپنے ہی ملک کے کسی ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہا ہوتصویر: Andreea Alexandru/AP Photo/picture alliance

آسٹریا کا ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ

آسٹریا نے لیکن اس ہفتے کے آغاز پر اعلان کر دیا تھا کہ وہ اس بارے میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے اگلے اجلاس میں اپنا ویٹو کا حق استعمال نہیں کرے گا۔ اسی لیے یونین کے وزراء نے آج 12 دسمبر کو یہ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا کہ یکم جنوری سے بلغاریہ اور رومانیہ بھی شینگن معاہدے کے مکمل رکن بن جائیں گے۔

پاکستان، شینگن ویزوں کی اب تک کی سب سے بڑی چوری

اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگلے ماہ کے آغاز سے بلغاریہ اور رومانیہ سے یا شینگن معاہدے میں شامل دیگر ممالک سے وہاں تک کا ہر قسم کا سفر اور آمد و رفت کسی بھی سرحدی نگرانی کے بغیر ممکن ہوں گے۔

یورپی یونین کے شینگن زون کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا کا ایسا سب سے بڑا خطہ ہے، جس میں داخلی سرحدوں پر نگرانی کے بغیر آزادانہ سفر کیا جا سکتا ہے۔ اس زون میں رہنے والے 400 ملین سے زیادہ یورپی باشندے کسی بھی رکن ملک میں بارڈر کنٹرول کے بغیر باآسانی آ جا سکتے ہیں۔

م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں