1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہاں ترقی کے لامحدود امکانات ہیں‘ جرمن وفد پاکستان میں

رفعت سعید، کراچی12 جون 2015

پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ حکومتی اقدامات کے باعث غیرملکی سرمایہ کار خصوصاً یورپی ممالک پاکستان پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری ایک بڑے تجارتی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔

Pakistan Karachi Delegation Steinlein Rede
جرمن وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری اسٹیفن شٹائن لائن (دائیں جانب)، پاکستان میں جرمن سفیر ڈاکٹر سیرل نن (درمیان) اور جرمن قونصل جنرل ڈاکٹر ٹیلو کلینر (انتہائی بائیں)تصویر: DW/R. Saaed

دورے کے پہلے مرحلے میں جرمن وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری اسٹیفن شٹائن لائن کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے وفد نے وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز، خصوصی معاون طارق فاطمی اور وزیر تجارت خرم دستگیر خان سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان میں کاروبار کے مواقع اور درپیش چیلنجز کے بارے میں گفتگو کی۔ اس وفد نے سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی تبادلہٴ خیال کیا گیا۔

دورے کے دوسرے مرحلے میں اسٹیفن شٹائن لائن اپنے وفد کے ہمراہ دو روز کے لیے کراچی پہنچے ہیں، جہاں انہوں نے گذشتہ روز وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کی۔ وزیر اعلٰی ہاؤس میں ایک گول میز کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس کا موضوع تھا، کراچی، سندھ اور پاکستان میں جرمن تاجروں کے لیے کاروبار کے مواقع۔ کانفرنس میں وزراء کے علاوہ بورڈ آف انوسٹمنٹ سندھ اور سندھ ریوینو بورڈ کے اراکین نے بھی شرکت کی۔ جرمن وفد کے ارکان نے جرمن کمپنی میٹرو کیش اینڈ کیری اور انسٹیٹیوٹ آف جرمن پاکستان ٹریننگ پروگرام کے تعاون سے کام کرنے والے ’امن ٹیک‘ کا بھی دروہ کیا۔

جمعے کے روز جرمن نائب وزیر خارجہ اسٹیفن شٹائن لائن نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ بعد میں ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان جرمن بزنس فورم اور جرمن پاکستان ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات میں بہتری خطے کے لیے ضروری ہے اور جرمنی اس حوالے سے کردار ادا کر سکتا ہے۔

جرمن پاکستان ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ کی ڈائریکٹر اینس شابی کراچی منعقدہ اجتماع سے خطاب کر رہی ہیںتصویر: DW/R. Saaed

نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یورپ صدیوں تک جنگ میں رہا، فرانس اور جرمنی ماضی میں جنگوں کے باوجود آج بہترین پڑوسی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر بہت سی چیزیں بہتری کی طرف گامزن ہیں لیکن موجودہ حالات میں جوائنٹ چیمبر آف کامرس بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں جرمن کمپنیوں کی تعداد کم ہے اور اضافہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ شٹائن لائن کے مطابق اس کی وجہ پاکستان میں امن و امان کے معاملات ہیں اور اسی بناء پر بہت سی جرمن کمپنیاں پاکستان کے بارے میں خدشات رکھتی ہیں۔

جرمن نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایک 20 رکنی وفد کے پاکستان آنے کا مقصد ان خدشات کو دور کرنا ہے مگر جرمنی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث ایک اہم ملک ہے، جس کا ایک حصہ چین، افغانستان اور وسط ایشائی ممالک سے ملتا ہے اور اسکے دوسری طرف ایران اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ ’پاکستان اپنے بہترین محل وقوع کی وجہ سے کاروباری حب بننے جا رہا ہے اور پاکستان کا امیج بہتر ہو رہا ہے‘۔ انہوں نے جرمن آٹو موبائیل اور انرجی کمپنیوں کے لیے پاکستان کو موزوں ترین ملک بھی قرار دیا۔

انہوں نے کراچی کی خصوصی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس شہر میں ایک بڑا میگا سٹی بننے کی صلاحیت ہے، جس میں جرمن کمپنیاں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ پاکستان جرمن بزنس فورم ار جرمن ٹریڈ انوسٹمنٹ بھی اہم کردار ادار کر رہے ہیں۔ ایسے ادارے ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بہتر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان جرمن بزنس فورم اور جرمن پاکستان ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ کے ممبران جرمن وفد کے سربراہ کی تقریر سن رہے ہیںتصویر: DW/R. Saaed

پاکستان جرمن بزنس فورم کے سربراہ قاضی ساجد علی کا کہنا تھا کہ جرمن نائب وزیر خارجہ کا تاجروں کے وفد کے ہمراہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع موجود ہیں، خصوصاً موٹر گاڑیاں تیار کرنے کی انڈسٹری کے لیے پاکستان انتہائی موزوں ملک ہے لہٰذا جرمنی کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ فوکس ویگن کمپنی کے پاکستان آنے کی نوید ہے۔ بلند معیار کے باعث پاکستانی جرمن گاڑیوں میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں، لہٰذا دیگر جرمن کمپنیوں کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں